صاحبو! خدا کو جان دینی ہے، قسم ہے اس رب کی جو آسمانوں اور زمینوں کا مالک ہے، اگر ہمیں یہ علم ہو کہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں جبری طور پر کسی غیر مسلم کو مسلمان بنایا جا رہا ہے ، تو اپنی پوری قوت سے اس کی مخالفت کریں گے۔ کون کم بخت ہے جو جبری تبدیلی مذہب کی حمایت کر سکتا ہے؟ میرے جیسا عام شخص بھی اتنا جانتا ہے کہ دین میں جبر نہیں اور کسی شخص کو اس کی رضامندی کے بغیر مسلمان نہیں بنایا جا سکتا۔ دوسرا یہ کہ ہم سب اس حساسیت سے واقف ہیں جس کا تعلق پاکستان میں اقلیتی کمیونیٹیز سے ہے۔ ایک اخبارنویس کے طور پر مجھے علم ہے کہ ملک میں کسی مسلمان کے ساتھ ظلم ، زیادتی ہوجائے تو عالمی میڈیا میں ایک سطر کی خبر بھی نہیں بن سکتی، لیکن اگر کسی غیر مسلم پاکستانی کے ساتھ کچھ مسئلہ بنے تو نہ صرف یہ عالمی میڈیا کا ایشو بنے گا بلکہ پاکستان کا پورا انگریزی میڈیا یکایک جھرجھری لے کر بیدار ہوجائے گا اور آدم بو آدم بوکہتا ان خبروں پرجھپٹ پڑے گا۔ ہمارے ایک عزیزصحافی دوست نے برسوں اردو اخبارات میں کام کیا، نیوز روم، میگزین ، رپورٹنگ کرتے رہے، شومئی قسمت سے انہیں چند سال پہلے پے درپے دو انگریزی اخبارات میں کام کرنے کا موقعہ ملا۔انہیں رپورٹنگ کی ذمہ داری سونپی ۔ایک بات سے بڑے شاقی تھے کہ اردو پریس اور انگریزی پریس کی ترجیحات ایک دوسرے کے انتہائی متضاد کیوں ہیں؟کہتے کہ اردو اخبار کی رپورٹنگ میں ہمیشہ عوامی ایشوز اور جذبات کو اہمیت دی جاتی ہے، لوگ کیا سوچ رہے ہیں، ان کی کیا رائے ہے، وہ کیا چاہتے ہیں… اس طرح کے سوالات ایڈیٹر اور چیف رپورٹرصاحبان ڈسکس کرتے ہیں۔ان کے بقول انگریزی اخبار والے اس کے برعکس صرف چند مخصوص ایشوز میں دلچسپی رکھتے۔ ان میں سے ایک ایشو اقلیتوں کا بھی تھا۔ ہمارے دوست کے بقول اس معاملے میں انگلش پریس کے نیوز ایڈیٹرز صاحبان اپنا توازن کھو بیٹھتے اور کوریج میں واضح طور پر اینگلنگ نظر آتی۔ایک دن ہنس کر بتانے لگے کہ کسی رپورٹر نے غلطی سے بھی لفظ احمدی یا قادیانی بول دیا تو پچاس فٹ دور بیٹھے نیوز ایڈیٹر کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں، اڑتا ہوا وہ آتا اور پوچھتا کہ کوئی خبر ہے اس حوالے سے ؟ نفی میں جواب ملنے پر اس کی مایوسی دیدنی ہوتی۔ سندھ میں ہندو لڑکیوں کے قبول اسلام والا معاملے کو سمجھنا قطعی طور پر مشکل نہیں۔ لڑکیاں موجود ہیں، قانون موجود ہے۔ اگر ان کی عمر کم ہے، قانونی طور پر بالغ نہیں تو قانون ان کا فیصلہ کرے گا۔ اگر ان پر جبر کیا گیا تو یہ بات معلوم کرنا کتنا ایک مشکل ہے؟ عدالت کے سامنے وہ لڑکیاں بیان کر سکتی ہیں۔ اگر ان پر خوف طاری ہے تو ایک دو دنوں کے لئے دارالامان بھیجا جا سکتا ہے، وہاں ریلیکس ہونے کے بعد وہ عدالت میں پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کرا سکتی ہیں۔جبر ہوا تو چند منٹوں میں کیس فائنل ہوجائے گا،تب وہ اپنے گھر لوٹ سکتی ہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ اس حوالے سے کام کرنے والی این جی اوز پر کتنا دبائو ہوگا۔ وہ فنڈنگ لیتی رہی ہیں، اب انہیں جواب بھی دینا ہے، نمک حلال کرنا صرف مشرق نہیں بلکہ مغرب میں بھی اہم سمجھاجاتا ہے۔ ان کے ساتھ ہمدردی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جذبات کے بجائے یہ قانون اور عدالتی عملداری کا ایشو ہے۔پرانے زمانے میںامرا اپنے گھر کی کسی موت پر پیشہ ور ماتم کرنے والیوں کو بلایا کرتے ۔ ہندوستان کے بعض علاقوں میں انہیں ردالی کہتے ۔ اس پر بھارت میں ایک شاہکار فلم ردالی بنائی گئی ، غالبا اس کی پروڈیوسر لتا منگیشکر تھیں۔ اس کے گانے بھی مشہور ہوئے، خاص کر دل ہوم ہوم کرے والا نغمہ جو ڈاکٹر ہزاریکر نے گایا۔ آج کل ردالیوں کی ضرورت نہیں، احمدی کمیونٹی کا معاملہ ہو، مسیحی برادری یا پھر ہندو کمیونٹی کا کوئی ایشو … ہماری کئی این جی اوز اور ان کے کارکن اس حوالے سے صف ماتم بچھانے (پنجابی میں پھوڑی)کے ماہر ہیں، ان کی کارکردگی کسی بھی طورپیشہ ور ردالی سے کم نہیں ہوتی۔حقیقت مگر یہ ہے کہ کسی پھوڑی پر نہیں بلکہ یہ فیصلہ عدالت میں ہونا ہے۔ اس ایشو کے بارے میں خود کسی حتمی رائے دینے سے اسی لئے گریز کر رہا ہوں کہ متضاد حقائق بیان کئے جا رہے ہیں، عدالت ہی درست فیصلہ کر سکتی ہے۔ لڑکیوں کے خاندان نے تین چار دعوے کئے،ا ان کی بیٹیوں کو اغوا کیا گیا، دوسرا یہ کہ اغواکار مسلمان لڑکوں نے جبری طور پر ان کا مذہب تبدیل کرایا ،تیسرایہ کہ لڑکیاں نابالغ ہیں ، چوتھا یہ کہ سندھ کے ایک وڈیرے میاں مٹھو اغواکاروں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔پہلے دونوں دعوئوں یعنی لڑکی اغوا ہوئی، اس کا مذہب جبری تبدیل ہوا، ان کی تو عدالت میں فوری تصدیق ہوجائے گی، نابالغ والے معاملے پر بھی قانون موجود ہے، برتھ سرٹیفکیٹ ، ب فارم وغیرہ سے تصدیق ہوسکتی ہے۔ لڑکیوں کے والدین نے ایک مبینہ ب فارم پیش کیا ہے ، مقامی صحافیوں کے خیال میں وہ جعلی ہے۔ واللہ اعلم ۔ یہاں پر دو تین باتیں بیک گرائونڈ ر کے طور پر بتانی ضروری ہیں۔ ایک تو یہ سمجھنا چاہیے کہ درگاہ بھرچونڈی شریف سندھ کی معروف درگاہ ہے اور پچھلی ایک ڈیڑھ صدی سے اس کی شہرت یہی ہے کہ وہاں غیر مسلم جا کر قبول اسلام کرتے ہیں۔ درگاہ کے مشہور بزرگ سندھ میں حافظ الملت کے نام سے مشہور ہیں، ان کے خلفا میں کئی نامور علما اور بزرگوں کے نام آتے ہیں، مولانا عبیداللہ سندھی نے بھی ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ تحریک ریشمی رومال شروع کرنے والے اکابر کا تعلق بھی اسی حلقے سے رہا۔درگاہ بھرچونڈی شریف والے روایتی طور پر نومسلموں کی بھرپور مدد کرتے ، ان کی جان ومال کے تحفظ کے ساتھ انہیں مالی مدد بھی بہم پہنچاتے ہیں کہ سندھ کے اس علاقے میں ایک ہندو کے مسلمان ہونے کا مطلب پوری کمیونٹی سے کٹ جانا ہے، مدد کے بغیر پھر وہ سروائیو نہیں کر سکتا۔ میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو بھی اسی درگاہ سے تعلق رکھتے ہیں، وہ اس علاقہ سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے بھی رہ چکے ہیں۔ آج کل اگرچہ وہ پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔ میاں مٹھو کا ہندو ئوں کے قبول اسلام کے معاملے میں متحرک ہونا قابل فہم ہے۔ ان کا خاندان اسے اپنی ذمہ داری تصور کرتا ہے۔ ان نومسلموں کو عدالتی کیس کے لئے وکیل کا انتظام بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔ یعنی یہ صرف ایک سندھی وڈیرے کا معاملہ نہیں بلکہ اس کی ایک پوری تاریخ اور روایت ہے۔ اس بار ویسے ان لڑکیوں نے میاں مٹھو کے بجائے درگاہ کے سجادہ نشیں میاں عبدالخالق کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ یاد رہے کہ بھرچونڈی شریف والے مسلمان کرنے سے پہلے اپنی سی پوری تحقیق کرتے ہیں، برتھ سرٹیفکیٹ کی چھان بین کی جاتی ہے، خود اور اپنے گھر کی عورتوں کے ذریعے آنے والی ہندو لڑکیوں کا انٹرویو بھی کیا جاتا ہے ۔ انہیں اندازہ ہے کہ اگر کوئی غلطی ہوگئی یا سکینڈل بنا تو نہ صرف درگاہ کی ساکھ متاثر ہوگی، بلکہ سیاسی اعتبار سے بھی یہ گھاٹے کا سودا ہے ۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ صرف نوخیز لڑکیاں ہی اسلام کیوں قبول کرتی ہیں ، ہندو مرد ، بزرگ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ مقامی صحافی اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ایسے بے شمار کیسز ہیں جن میں ہندو مردوں نے اسلام قبول کیا، بعض اوقات توکسی مرد نے اپنی بیٹیوں، بہنوں سمیت، مگر وہ میڈیا کے لئے خبر نہیں۔ ایک سطر کی خبر بھی قومی میڈیا میں شائع نہیں ہوتی۔ ہندو لڑکی کا مسلمان ہونا البتہ فوری خبر بن جاتا ہے۔ خاص کر جب وہ اپنے گھر کو چھوڑ کر آئی ہو۔ مقامی لوگ دو تین وجوہات بتاتے ہیں۔ سب سے بڑی کہ یہ سب انتہائی نچلی ذات کے ہندو ہیں بلکہ بعض ماہرین تو انہیں ہندو مانتے ہی نہیں۔حالیہ کیس میں دونوں لڑکیاں میگھواڑ ہیں، بھارت میں اعلیٰ ذات کے ہندوان میگھواڑ وغیرہ کواس قدر نیچ سمجھتے ہیں کہ ہندو مت کا باقاعدہ حصہ ہی تصور نہیں کرتے۔اچھے گھروں کے رشتے ان کے لئے نہیں آتے، ان میں سے بعض گھرانوں میں کزن میرج بھی حرام سمجھی جاتی ہے، اس لئے رشتوں کی آپشن مزید کم ہوجاتی ہے۔ پھر یہاں جہیز کا بڑا ایشو ہے، غریب گھر کی لڑکیاں کنواری رہ جاتی ہیں کہ نہ جہیزہوگا نہ رشتہ آئے گا۔بدقسمتی سے ہماری ہندو کمیونٹی اور نہ ہی سندھ حکومت نے کبھی ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جہاں کہیں دلبرداشتہ ہندو لڑکی کا مسلمان لڑکے کے ساتھ انٹرایکشن ہوا، رومانی معاملہ پیدا ہوا تو معاملہ شادی تک صرف تب ہی جا سکتا ہے جب وہ ہندو لڑکی مسلمان ہوجائے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اہل کتاب لڑکی سے نکاح ہوسکتا ہے، لیکن ہندو لڑکی تبدیلی مذہب کے بغیر شادی نہیں کر سکتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ بعض جگہوں پر یا شائد بیشتر جگہوں پر یہی معاملہ ہو، لیکن جب کوئی لڑکی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو اور کہے کہ میں نے اپنی رضامندی سے اسلام قبول کیا ہے، تب ہمارے پاس اس پر شبہ کرنے کا کوئی شرعی جواز باقی نہیں رہتا۔ ہم اس کے دل کو چیر کر نہیں دیکھ سکتے۔اس لئے اس معاملے میںصرف یہ یقینی بنایا جائے کہ رضامندی کے ساتھ معاملہ طے ہوا۔ اگر کسی بھی قسم کا جبر شامل نہیں ، تب ریاست بھی مداخلت نہیں کر سکتی۔