پاکستان کی معاشی حالت سے متعلق دو الگ الگ رپورٹس شائع ہوئی ہیں۔ سٹیٹ بینک نے اپنی سہ ماہی رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک کی معیشت طلب کو قابو میں رکھنے کی پالیسی کے باعث استحکام کی طرف گامزن ہے تا ہم مارچ سے جولائی 2019ء تک مالیاتی اور بیرونی شعبوں میں کمزوریاں برقرار ہیں۔ سٹیٹ بینک کی تجویز ہے کہ استحکام کے موجودہ ایجنڈے کو بنیادی نوعیت کی اصلاحات کے ساتھ نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ میں جس مدت کا جائزہ لیا گیا ہے اس میں بجا طور پر شرح نمو خاصی سست رہی، حکومتی اصلاحات سے صنعتی شعبہ کی کارکردگی متاثر ہوئی اور مصنوعات سازی سے متعلق سرگرمیاں ماند پڑیں۔ جنوری 2018ء سے پالیسی ریٹ بڑھانے کے باوجود اوسط مہنگائی سالانہ ہدف سے بڑھ گئی۔ شرح مبادلہ میں کمی اور توانائی کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے کئی اشیا کی قیمتیں طلب میں کمی کے باوجود زیادہ ہو گئیں۔ رپورٹ میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ مستقبل میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی منصوبہ بندی نہ کی گئی تو آبادی کی شرح میں اضافہ، پانی کی قلت اور موسمیاتی تغیر قومی معیشت پر منفی اثرات کے حامل ہو سکتے ہیں۔ دوسری رپورٹ عالمی مالیاتی فنڈ نے جاری کی ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستانی معیشت میں بہتری کو خوش آئند قرار دیا اور ٹیکس اصلاحات کی تحسین کی ہے۔ آئی ایم ایف نے تخمینہ لگایا ہے کہ حکومت کی معاشی اصلاحات جاری رہیں تو 2024ء تک پاکستان کے کل محصولات 10.5کھرب روپے ہوئے کا امکان ہے۔ یاد رہے حالیہ بجٹ کا حجم سات کھرب بائیس ارب روپے ہے۔ بجٹ میں مختلف شعبوں میں ہونے والے سالانہ اضافی مطالبات کو 2024ء کے بجٹ کا حصہ بنایا جائے تو پھر بھی امکان ہے کہ پاکستان اگلے پانچ برسوں میں خسارے سے پاک بجٹ ترتیب دینے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ وطن عزیز میں حکومتیں ہر کام کرتی رہی ہیں سوائے ملک کے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے کے۔ سیاسی جماعت کا مطلب ایسے رفقا کا گروپ سمجھ لیا گیا ہے جو ایک دوسرے سے تعلق داری نبھانے کے لیے ریاستی مفادات تک کو قربان کر سکتے ہیں۔ جمہوریت کا مطلب اقتدار اور طاقت کو صرف اپنے ساتھیوں تک محدود رکھنا ہے۔ آج تک اس ملک میں جتنی پالیسیاں تشکیل دی گئیں ان میں بالائی، حکمران طبقات کے مفادات کو اہمیت دی گئی۔ سڑکوں اور موٹرویز کی تعمیر اس لیے ہوئی کہ بھاری قرضوں میں خوردبرد کی جائے اور ملک میں موٹر سازی کے غیر ملکی اداروں کی مارکیٹ پیدا کی جائے۔ بینکوں کو کارفنانسنگ کا موقع ملے۔ بجلی ہر شہری کی ضرورت ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے تیل اور گیس والے کارخانوں کو ترجیح دی جاتی رہی۔ پن بجلی کے منصوبوں کو پس پشت ڈالا گیا۔ اس المیے کا یہ رخ دعوت فکر دیتا ہے کہ تین سو ارب سے میٹرو ٹرین منصوبہ شروع ہو جاتا ہے۔ 700ارب روپے سے بھاشا ڈیم شروع نہیں ہوتا جس کی لاگت کا تخمینہ اب بڑھ کر 1400ارب روپے ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد یہ طے کیا کہ انہوں نے عوام سے جس تبدیلی کا وعدہ کر رکھا ہے وہ معاشی تبدیلی کی گلی سے گزرے بغیر منزل پر نہیں پہنچے گی، معیشت کی حالت یہ تھی کہ تین برسوں میں ساڑھے 27ارب ڈالر کا غیر ملکی قرض ادا کرنا تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر چھ ارب ڈالر تک گر چکے تھے۔ برآمدات کا حجم افغانستان، امریکہ اور یورپ کی منڈیوں میں کم طلب کے باعث مسلسل کم ہو رہا تھا اور سی پیک انفراسٹرکچر منصوبوں کی وجہ سے درآمدات بڑھ چکی تھیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر سی پیک مشینری اور تیل کا درآمدی بل ادا کرنے کے قابل نہ تھے۔ اس صورت حال نے روپے کی قدر پر دبائو بڑھایا اور 103روپے کا ڈالر 160روپے تک آ گیا، سونا متبادل کرنسی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر آ گئی۔ جیسا کہ سٹیٹ بینک کی رپورٹ میں مذکور ہے کہ حکومت نے درآمدات کم کر کے امپورٹ ایکسپورٹ کے مابین وسیع خلیج کو کم کرنے کے لیے جو انتظامی اقدامات کیے اس کا نتیجہ 6ارب ڈالر کی درآمدات میں کمی کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ بھی درست ہے کہ اشیائے ضروریہ کی طلب میں کمی کا نتیجہ نرخوں میں کمی کی صورت میں ظاہر ہونا چاہیے۔ یہ معاشیات کا اصول ہے مگر ہمارے ہاں اس لیے یہ نہیں ہو سکا کہ اشیاء کی پیداواری لاگت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے اشیاء کے نرخ زیادہ ہوئے اور ملک بھر میں مہنگائی کی شرح بڑھی۔ حکومت نے ابتدا میں اس ساری صورت حال کو اپنے مالیاتی ایجنڈے کے مطابق دیکھنے کی کوشش کی۔ آئی ایم ایف سے قرض نہ لینے کی بات کو حرزجاں بنایا گیا۔ دیر آید درست آید۔ بہرحال معاملہ یہی کھلا کہ عمران خان ہر ممکن کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں سے بچائیں۔ وزیر اعظم نے دوست ممالک سے رابطہ کیا۔ باصلاحیت اور تجربہ کار افراد کو گورنر سٹیٹ بینک، ایف بی آر کے چیئرمین اور مشیر خزانہ کے منصب تفویض کیے۔ سٹیٹ بینک اور آئی ایم ایف ملک میں جس استحکام کی نوید سنا رہے ہیں وہ اس مالیاتی ٹیم کی کاوشوں سے ابھر رہا ہے۔ پاکستان میں معاشی ترقی کو قرضوں کی بیساکھیوں سے آزاد کرنے کے لیے ٹیکس اصلاحات کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ معیشت کو دستاویزی بنایا جا رہا ہے۔ لین دین اور املاک کا ریکارڈ دیکھ کر نئے ٹیکس گزاروں کا اندراج ہو رہا ہے۔ بدعنوانی کے خلاف حکومتی پالیسی اور اداروں کی کارروائیوں کو اس مرحلے پر سیاست زدہ کرنے سے اجتناب ضروری ہے۔ ان پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے تا کہ پاکستان معاشی آزادی سے ہمکنار ہو سکے۔