ملکی معیشت میں جاری ہچکولوں کو قرار دینے کی ضرورت ہے،اس کے لئے جو ضروری اقدام کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ پاکستان کیلئے آئی ایم پروگرام کا دوبارہ اجرا ہو جائے۔اسی لیے پاکستان آئی ایم ایف کے پرو گرام کی بحالی کی تیاری کر رہا ہے،آئندہ چند ہفتوں میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پاکستان کیلئے قرضے کی چھٹی قسط کے اجرا سے متعلق مذاکرات ہونگے۔ خیال یہ ہے کہ اسی ماہ قرضے کا اجرا ہو جائے گا۔گزشتہ دنوں اسٹیٹ بنک نے آئندہ ماہ کیلئے بنیادی شرح سود میں0.25فیصد کا اضافہ کیا ہے،اب شرح سود7.25 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔15 ماہ تک یہ پالیسی ریٹ 7فیصد تک مستحکم تھا،جس میں اب تبدیلی لائی گئی ہے ،گورنر اسٹیٹ بنک رضا باقر کا کہنا ہے :کہ اگر ضرورت پڑی تو پالیسی ریٹ میں مزید تبدیلی ہو گی ۔ماہرین سمجھتے ہیں کہ آئندہ مانیٹری پالیسی کا اجلاس ہوگا،نومبر میں اس میں بھی شرح سود0.25فیصد اضافے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی سے معیشت میں بہتری آئے گی۔حکومت کے غیرضروری اخراجات کو حد میں رکھنے میں مدد ملے گی۔حکومت کا کامیاب پاکستان پروگرام جس کے تحت کم آمدن والے 70 لاکھ خاندانوں کو بلا سود سستے قرضے فراہم ہونا تھا،آئی ایم ایف نے اس پرو گرام کو ویٹو کردیا،جسے حکومت نے مان لیا تھا،اب حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بجلی کے بلوں میں5 سے35 فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پچھلے ہفتے حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں بھی 5 روپے فی لیٹر اضافہ کیا،جس کے بعد پٹرول کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 123 روپے 70 پیسے تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح پچھلے چار ماہ میں روپے کی قدر میں بھی کمی ہو گئی ہے،ڈالر 173 رو پے کے قریب پہنچ گیا ہے۔مئی میں ڈالر 152 روپے کا تھا۔پاکستان جولائی 2019 سے آئی ایم ایف کا حصہ ہے،2 سال میں پاکستان آئی ایم ایف سے 2 ارب ڈالر حاصل کر چکا ہے۔ آئی ایم ایف نے کورونا امدادی پروگرام کے تحت2 ارب 77 کروڑ ڈالر فراہم کئے تھے۔ایک ارب ڈالر کی آئندہ قسط کیلئے آئی ایم ایف کا چھٹا جائزہ اجلاس اب چند ہفتوں میں ہو گا۔جس کیلئے وزیر خزانہ شوکت ترین واشنگٹن جائینگے،وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پرو گرام میں رہنا پاکستان کے مفاد میں ہے،ماہرین کے مطابق اگر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان کو اس کا فائدہ ہو گا لیکن اس وقت آئی ایم ایف کی بارگیننگ زیادہ مضبوط ہے۔ آئی ایم ایف اپنی شرائط منوانے کی پوزیشن میں ہے،پچھلے کئی ہفتوں سے دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے ایکسچینج ریٹ بڑھایا پالیسی ریٹ بڑھایا بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا، اس حوالے سے آئی ایم ایف کی بہت سی شرائط تو پہلے ہی پوری کردی گئیں گویا کہ پاکستان تیاری کر رہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ بن جائے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا آغاز اکتوبر میں ہوگاجبکہ آئی ایم ایف نے سبسڈی ختم کرنے کیساتھ مالی نظم و ضبط قائم کرنے کا مطالبہ کیاہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا کہ آٹے، گھی،چینی،دالوں اور چاول پر سبسڈی ختم کرکے صرف احساس پروگرام میں شامل افراد کو ہی ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے۔مذاکرات میں پاکستانی معیشت،اہداف کے حصول، سبسڈیز،محصولات اور گردشی قرضہ کی صورتحال کا جائزہ لیاجائے گا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس دو سال رہ گئے ہیں ایک سال آخری سال تو الیکشن کا سال ہو گا، اس سے پہلے سال حکومت آئی ایم ایف کے پاس جائے گی،آئی ایم ایف کی کڑی شرائط میں الیکشن سے پہلے کا سال حکومت کیلئے انتہائی مشکل ہو جائے گا کیونکہ مہنگائی کا طوفان آئے گا تو الیکشن کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو مطمئن کیا جا ئے کہ ملک میں مہنگائی کم ہو،روزگار ملے،کامیاب پاکستان پروگرام حکومت کی بہت مدد کرسکتا تھا لیکن آئی ایم ایف نے انکار کردیا اور حکومت کو اس سے پیچھے ہٹنا پڑا۔حکومت کا خیال تھا کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کنٹرول میں رہے گا وہ نہیں رہا، پہلے سے زیادہ بڑھ گیا، روپیہ مستحکم نہیں رہا مہنگائی کنٹرول میں نہیں رہی، لہذا حکومت کو انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ حکومت اور اسٹیٹ بنک کی کیلکولیشن غلط ہو گئی حکومت کا اندازہ تھا کہ غیر ملکی ترسیل زر آتی رہیں گی اور آئی ایم ایف پرو گرام کو معطل کر کے ترسیلات زر سے فا ئدہ اٹھائیں گے لیکن یہ توقع کے بر عکس ہو گیا اور جس تیزی سے در آمدات بڑھ رہی ہیں، اس سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو تا جا رہا اور روپیہ کنٹرول میں نہیں رہا۔صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستا نی معیشت آئی ایم ایف کی شاہراہ پر سفر کرنے کو تیار ہے۔ حالیہ مہینوں میں پاکستان کی معاشی ترقی جس برق رفتاری سے آگے بڑھتی نظر آ رہی ہے اس نے تجارتی خسارے کو جنم دیا ہے، گو کہ امپورٹ بڑھی ہیں لیکن ایکسپورٹ اس کا مقابلہ نہیں کر سکی ،جس سے ایک بار پھر خطر ناک تجارتی خسارے کے نمبر سامنے آ رہے ہیں، ہمارا سرکولر ڈیٹ ہمارا انرجی کرائسس کسی صورت بھی قابو میں نہیں آ رہا۔اسی پس منظر میں مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے، اسی لئے پاکستان ایک بار پھر آئی ایم ایف کے دروازے پر جا کھڑا ہوا۔ آئی ایم ایف نے 3 جولائی2019 کو 6 ارب ڈالر پرو گرام میں منظوری دی تھی، پچھلے سال اپریل میں پرو گرام منجمد ہو گیا تھا،11 ماہ کے تعطل کے بعد آئی ایم ایف نے اس سال مارچ میں پاکستان کی معیشت پر اطمینان کا اظہار کیا تھا اور 50 کروڈ ڈالر کی قسط جاری کی تھی پاکستان اب تک آئی ایم ایف سے دو ارب ڈالر لے چکا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کی کارکردگی کے حوالے سے آئندہ20 ماہ بہت اہم ہیں۔ ان 20 ماہ میں جو انکی کار کردگی ہونی ہے وہ الیکشن کے حوالے سے بہت اہم ہو گی ۔عمران خان کے لئے بہت ہی نازک مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف پرو گرام اور الیکشن کی تیاریاں ساتھ ساتھ چلیں گی جو حکومت کے لئے مشکل مرحلہ ہو گا،پاکستان کو قسط کے اجرا سے ایک دن قبل آئی ایم ایف نے96 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں پاکستان کی معاشی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے تقریباً ہر چھوٹے بڑے ایکشن کی نشاندہی کی گئی تھی۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان چھوٹ اور سبسٹڈی ختم کرے،2023 تک گردشی قرضوں سے نجات حاصل کرے ۔فارن ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ بیس رکھا جا ئے، ریئل اسٹیٹ پر ٹیکس کی پکڑ مضبوط ہو،جی ایس ٹی کو ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی طرف لے جانا ہو گا،زرعی شعبے کی آمدن پر زرعی ٹیکس لگے،خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری ہو یہ حکومت کیلئے معاشی چیلنجز ہیں۔ دیکھنا یہ ہے حکومت کیسے ان پر قابو پاتی ہے۔ کیسے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرتی ہے۔