مکرمی !حضرت امام حسین ؑ نے اپنے عمل کے ذریعے مسلمانوںکو یہ درس دیا ہے کہ اگر تم واقعتا دیندار ہو اور تمہارا خدا اور اس کے دین پر مکمل عقیدہ و ایمان ہے توپھر تم پر لازم ہے کہ تم اللہ اور اس کے دین کے مطابق مشرکین کے مقابلے کیلئے اٹھ کھڑے ہو۔اسلام کی حفاظت اور امام ؑ کی پیروی کا جذبہ ہی ہے جو فدا کاری سے سرشار ہوتا ہے اور اس کی کوئی حد نہیں ہوتی یہ ہی وہ جذبہ ہے جو جان و مال بیوی بچوں اور اپنے تمام گھر بار تک قربان کر سکتا ہے۔حضرت امام حسین ؑ کو نہ تو ملک گیری کی ہوس تھی نہ وہ ذاتی اقتدار چاہتے تھے امام حسین ؑکا مقصد شہادت دراصل اسلام کی آئینی عظمت کا نہ مٹنے والا نقش قائم کرنا تھا۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں طاقت اور اقتدار کو حق نہ سمجھا جائے بلکہ حق کو حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس کی جائے۔ امام حسین ؑ کا یہ اعلان تاریخ اسلام میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے: ’’اگر حکومت قرآن و سنت پر قائم نہ ہوتو ظالموں اور جابروں کے ساتھ تعاون کرنا نہ صرف گناہ ہے بلکہ جو شخص دیکھے اور خاموش رہے اس کا شمار ظالموں میں کیا جائے اور اس طرح ذلت کی زندگی سے موت بہتر ہے‘‘ اگر نواسہ رسولؐ روز عاشور اپنے خاندان ، رفقاء اور عزیزوں کی قربانی پیش نہ کرتے تو نوع انسان یہ کہنے میں حق بجانب ہوتے کہ حق باطل کے سامنے جھک گیا ہے۔ لیکن امام ؑ نے میدان کربلا میں جو عظیم قربانی پیش کی ہے اس نے ثابت کر دیا ہے کہ باطل ہمیشہ مٹنے والا ہے خواہ اس کے پیچھے کتنی ہی بڑی قوت کارفرما کیوں نہ ہو۔ (امتیاز احمد)