کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں، دِل نہیں ہوتا۔ بقول ِشورش کاشمیری مرحوم، یہ عربی مقولہ ہے۔ بے دِلی کے ساتھ، بے ضمیری کو بھی شامل کیا جائے، تو سیاست کی تعریف، مکمل ہو جاتی ہے! سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیاست میں، پھر ہوتا کیا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ سیاست میں وہی کچھ ہوتا ہے، جو آج کل امریکا میں ہو رہا ہے! یہاں طبل ِجنگ بج چکا ہے۔ چار ماہ بعد، امریکا میں صدارتی انتخابات ہیں۔ ہر طرح کے اوچھے، سارے ہی ہتھکنڈے سامنے آ رہے ہیں۔ چند روز قبل، امریکن صدر کی بھتیجی کا "چچا نامہ"چھپا ہے اور بہت داد پا رہا ہے۔ اس کتاب کی، ریکارڈ بِکری ہوئی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ انتخابات، بہت مختلف ہوں گے۔ اس لیے کہ دنیا ایک عجیب مرحلے میں ہے۔ اور یوں بھی کہ سب سے زیادہ عجیب، خود موجودہ امریکن صدر ہیں! دو سال پہلے، اسی کالم میں لکھا گیا تھا کہ نگارخانہئ￿ چین میں، جیسے بھینسا گھْس آئے، امریکی سیاست میں کچھ اسی شان سے آمد، ٹرمپ کی ہوئی ہے۔ مگر اب کہنا پڑتا ہے کہ ایک بْت خانہ تھا، جس کے دسیوں بْت ان کے ہاتھوں ٹْوٹے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ٹوٹا ہوا ہر بْت، دس نئے سر نکال لیتا ہے۔ جس شخص کے دور میں، امریکن معیشت نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے، وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ، غیر مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ پر سارے نامعقول جس تیزی سے ٹرمپ کے خلاف ہوتے جا رہے ہیں، حتمی تجزیہ باور کراتا ہے کہ معقول ترین امیدوار، ڈونلڈ ٹرمپ ہیں! ٹرمپ کی عدم ِمقبولیت میں کچھ ہاتھ، میڈیا کے کرم فرمائوں کا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ نقصان، انہیں کورونا وائرس نے پہنچایا ہے۔ اس دیہاتی کی طرح، جس نے کمبل چوری ہو جانے کی شکایت کی تھی، ٹرمپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وائرس، پیدا ہی انہیں ہروانے کے واسطے ہوا ہے۔ ٹرمپ کے جیتنے کا امکان، کم ہوتا جا رہا ہے، مگر ان کا مقابل تو ڈھنگ کے دو فقرے بھی، جوڑ نہیں سکتا۔اپنی پالیسیوں کی بدولت، ٹرمپ اسٹیبلشمینٹ کے سینے کی پھانس بنے رہے ہیں۔ اوّل جنگ جوئی سے اجتناب، پھر انیس سال پرانی جنگ کے خاتمے کی کوششیں، یہ اسٹیبلشمینٹ کے پیٹ پر لات مارنے کے برابر ہے۔ ان کی خارجہ پالیسی سے بھی، اسٹیبلشمینٹ تنگ ہے۔ رْوسی صدر ولادیمر پوتن سے ان کا پینگیں بڑھانا، اسٹیبلشمینٹ اور ڈیموکریٹ پارٹی تو رہیں ایک طرف، خود ان کی اپنی جماعت ریپبلکن کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔ ان دنوں ایک کام البتہ اسٹیبلشمینٹ کے مقصد کا ہوا ہے۔ چین کو ٹرمپ نے دھتا بتائی ہے اور ان کی دیکھا دیکھی، برطانیہ نے بھی چینی کمپنی "ہْوا وے" کی فائیو جی ٹیکنالوجی کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔ چین نے جواباً دھمکایا ہے کہ اب اپنی بھی خیر منائیے۔ریپبلکن پارٹی میں، اسٹیبلشمینٹ کا پلا پلایا اور سدھا سدھایا گھوڑا، موجودہ نائب صدر مائک پینس کی شکل میں موجود ہے۔ لیکن کتنے ہی غیر مقبول ہو جائیں، ٹرمپ کا سیدھے سبھائو انتخابات سے دست بردار ہونا، مشکل ہے۔فارسی مقولہ ہے "سالی کہ نکْوست، از بہارش پیداست"۔ یعنی جس شے کا آغاز اچھا ہو، انجام بھی بخیر ہوتا ہے۔ 2020ء شروع کورونا سے ہوا تھا اور اختتام بھی اس کا، بخیر ہوتا نظر نہیں آتا۔ امریکا میں لوگوں پر، جب قْرقی کا وقت آتا ہے تو اکثر مکین، جانے سے پہلے مکان کو برباد کر دیتے ہیں۔ ٹرمپ پر بھی ایسا وقت آیا تو نہیں معلوم، کیا کچھ توڑ پھوڑ جائیں!ا ٭٭٭٭٭ بے وقت کی راگنی پاکستان میں بسنے والے ہندو، ہمارے ہم وطن ہیں۔ ان کی دست گیری، اگر ہم نہ کریں گے تو کون کرے گا؟ نہایت شرم کی بات ہو گی اگر داد رسی کے لیے، وہ بھارت کا منہ دیکھیں۔ یا ان کی ضروریات پوری کرنے کو، بھارت آگے بڑھے۔ لیکن مندر کی تعمیر کا مسئلہ، اتنا سیدھا ہے نہیں جتنا بتایا جا رہا ہے۔ بے وقت کی راگنی، کسی کو اچھی نہیں لگتی۔ پاکستانی ہندو بھی بے چارے، اپنے باقی ہم وطنوں کی طرح، کورونا سے جان بچانے کی تدبیریں کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ناعاقبت اندیشی نے، ایک غیر ضروری قدم اٹھا کر، اس اقلیت کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔’’اسلام’’ آباد میں مندر بننا چاہیے یا نہیں، یہ موقع اس بحث کا تھا ہی نہیں۔ شروع ہو ہی گئی تھی تو بجاے اس کے مختلف پہلوئوں پر غور کرنے کے، کاتا اور لے دوڑی کا کھیل شروع ہو گیا۔ قائل کر دینے والی دلیل، کسی بھی جانب سے سامنے نہیں آئی۔ کورونا کی بلا ٹل جائے تو ایک سوال کا جواب البتہ چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم انتہا کو پہنچ رہا ہے اور آزاد کشمیر میں بھی شہادتیں، آئے روز ہو رہی ہیں، لیکن کرتار پور راہداری پر،آندھی جائے یا طوفان، آنچ نہیں آنے دی جا رہی، آخر کیوں؟ ایک گال پر تھپڑ کھا کر ، دوسرا گال بھی پیش کر دینے کا فلسفہ ، مسیحیوں نے بھی کبھی نہیں اپنایا، پھر یہ پالیسی، ہم نے کیوں اختیار کر لی؟ جان نہ فلاں سپر پاور کو دینی ہے اور نہ فلاں طاقت کو۔ اس کا مالک، صرف خدا ہے۔ اپنا مقدمہ خدا کے حضور، کشمیری جب پیش کریں گے، تو ہم کیا جواب دیں گے؟ اسلامی نقطہ نظر کو چھوڑیے، انسانیت کے بھی ہم مجرم ہیں! چین اور بھارت کی لڑائی پر بغلیں بجانے کے بجائے، اپنی حکمت عملی ہمیں درست کرنی چاہیے تھی۔ مگر افسوس! اس کا کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا۔ ہماری حالت ‘‘شیر آیا شیر’’ جیسی ہو چکی ہے۔ ستر سال سے اختلافی بیانیے کو ہم، صرف بدنیتی اور غداری سے منسوب کرتے آئے ہیں۔ بچپن سے یہ خاکسار بھی سنتا آ رہا ہے کہ وطن کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ آج، جب واقعی ملک خطروں اور سازشوں میں بری طرح گھر چکا ہے، چیخ پکار بھی کام نہیں آ رہی! اپنی بات کا وزن کھونا، کوئی ہم سے سیکھے!مولانا چراغ حسن حسرت نے، انتقال سے چند روز پہلے لکھا تھا کہ میرے جسم کی حالت اس بستی کی سی ہو گئی ہے، جس پر تباہی نازل ہوئی اور نیکوکاروں کی بھی دعائیں مقبول نہ ہوئیں! بہّتر برس کے تجربات سے، یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پاکستان کو بڑا نقصان، باہر سے نہیں، اندر سے پہنچتا ہے۔ طریقہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے عہدوں پر اپنے بندے فائز کرائے جائیں اور عوام کی ذہنیت اس قدر مسخ کر دی جائے کہ نیک و بد کی تمیز، جاتی رہے۔ اب غور کیجیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟