وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نوجوانوں کی تعلیم تک آسان رسائی کو یقینی بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ تمام معاشی مشکلات کے باوجود ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے حوالے سے مالی ضروریات کو پورا کیا جائے گا ۔ تعلیم کا بجٹ دو گنا تو ہو سکتا ہے ، کم نہیں ہو سکتا ۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے حوالے اجلاس کی صدارت کے دوران گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت میں تعلیم کا ترقیاتی بجٹ محض 14 ارب روپے تھا ۔ جو ہم نے 29 ارب روپے تک بڑھا دیا ۔ مجموعی طورپر تعلیم کا ترقیاتی بجٹ 35 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے ۔ 6سے 7 ارب روپے نالج اکانوی پر خرچ ہوں گے۔ کامیاب جوان پروگرام کے تحت 130 ارب نوجوانوں پر خرچ ہونگے ۔ تعلیم کے حوالے سے وزیراعظم کا خطاب نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت نے تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا ہے تاہم اس بجٹ کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے بارے میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ان کو تعلیمی ماہرین نے تعلیم کی اہمیت پر بریفنگ دی، جس پر میاں نواز شریف نے کہا کہ کہ تعلیم کے اضافے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہوگی؟ تو ماہرین نے جواب دیا کتابوں کی۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ وہ منصوبہ تیار کر کے لاؤ جس پر کاغذ کی بجائے لوہے کا استعمال زیادہ ہو۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اجلاس میں وزیراعظم نے تعلیمی نصاب میں تصوف کو شامل کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ نصاب کا تعین کرتے وقت یقینی بنایا جائے کہ نظام تعلیم ہماری نوجوان نسل کو اسلامی و مشرقی اقدار ، صوفیاء کرام اور ان کے فلسفے کے بارے میں آگاہی فراہم کرے ۔ وزیراعظم کی طرف سے تصوف کی تعلیم کی ہدایت کا خیر مقدم ہو نا چاہئے کہ آج کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ صرف اور صرف صوفیاء کی انسان دوستی کی تعلیم سے کیا جا سکتا ہے ۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ محکمہ اوقاف پنجاب کی طرف سے بھی ہر ضلع میں صوفی یونیورسٹی اور تصوف اکیڈمیوں کا اعلان ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں پہلے سے موجود یونیورسٹیوں میں صوفی چیئرز قائم کی جائیں اور ان سے انسان دوستی کے حوالے سے تحقیق اور ریسرچ کا کام لیا جائے ۔ نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ عرض کروں گا کہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں خواجہ فرید چیئرز سال ہا سال سے قائم ہیں مگر آج تک ان کو فنکشنل نہیں کیا جا سکا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خواجہ فرید چیئرز کو فوری طور پر فنکشنل کیا جائے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی عرض کروں گا کہ سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر جو کہ راقم الحروف نے پانچ سال کی عدالتی جدوجہد کے بعد قائم کرایا ، میں آٹھ شعبے نان فنکشنل ہیں ، یونیورسٹی کی طرف سے ہر سال بجٹ کی کتاب میں بجٹ بھی آتا ہے اور آسامیاں بھی ، مگر ہر سال بجٹ لیپس ہو جاتاہے۔ نئے وائس چانسلر اور گورنر کو اس بارے فوری قدم اٹھانا چاہئے ۔ میرا آج کا موضوع معاشی تعلیم کی اہمیت و ضرورت ہے ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیراعظم کی زیر صدارت ای کامرس سے متعلق اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم نے سٹیٹ بنک اور وزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ فری لانسرز ،تعلیم یافتہ اور ٹیکنالوجی پر عبور رکھنے والے نوجوانوں کو روزگار کمانے میں ای کامرس کو مکمل طور پر بروئے کار لایا جائے ۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو ، اس کا محور و مرکز معیشت ہے ۔ سرائیکی کی ایک کہاوت ہے ’’ جیں دے گھر دانے اوندے کملے وی سیانے ‘‘ ۔ اسی طرح ایک اور خوبصورت کہاوت بھی ہے ’’ پیر نہ پاون روٹیاں تے ساریاں گالھیں کھوٹیاں ۔ ‘‘ وزیراعظم نے بہت اچھا کیا کہ کامرس کے حوالے سے بھی بات کی ، اس وقت پاکستان کو معاشی تعلیم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے نشے کی لت میں ڈوبی ہوئی چینی قوم نے پوری دنیا کو حیران کر کے رکھ دیا ، اس کی معاشی ترقی امریکا، روس، برطانیہ ، فرانس ، جاپان سب کو پیچھے چھوڑ گئی ۔ آج چین سپر پاور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے تو صرف معیشت کی وجہ سے ۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ چین نے ترقی اپنی ماں بولی کی تعلیم سے حاصل کی ۔ پاکستان کو بھی اس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں بولی جانیوالی ماں بولیوں کو ترقی دی جائے اور ابتدائی تعلیم ہر صورت بچے کو اس کی ماں بولی میں ملنی چاہئے ، اس سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو نمو ملتی ہے ۔ آگے چل کر وہی بچہ پورے اعتماد اور اپنی تخلیقی و ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ آگے بڑھتا ہے ۔ چین کی معاشی ترقی ایک بہت بڑا سونامی ہے ، آنے والے وقتوں کا ادراک کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہماری معیشت میں چین کا عمل دخل ایک عرصے سے چلا آ رہا ہے اور سی پیک منصوبے کے بعد اس عمل دخل میں اضافہ ہو چکا ہے ۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سی پیک اور معاشی تعلقات کے حوالے سے کچھ ماہ کیلئے سرد مہری بھی آئی مگر اس کا نتیجہ پاکستان کے حق میں سود مند ثابت نہ ہوا ، اس لئے پاکستان کی حکومت کو دوبارہ چین کی طرف رجوع کرنا پڑا اور اب سی پیک پر دوبارہ کام شروع ہو چکا ہے اور چین کی طرف سے فنڈز بھی آنا شروع ہوئے ہیں جس کی بناء پر حکمران دعویٰ کر رہے ہیں کہ 2020ء معاشی ترقی کا سال ہوگا۔ چین نے پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کیلئے قریباً 350 کے لگ بھگ اشیاء کو ڈیوٹی فری کر دیا ہے ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں 350 میں سے محض پانچ یا 10 فیصد صنعتی ادارے موجود ہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ صنعتی ترقی بڑھائی جائے ، معاشی تعلیم میں اضافہ کیا جائے اور چین کی فری ڈیوٹی اشیاء سے استفادہ کرنے کیلئے گھریلو صنعتوں کو فروغ دیا جائے ۔ اگر مستقبل قریب میں ڈیوٹی فری کی گئی اشیاء کے صنعتی ادارے چین اور چینی صنعت کاروں نے لگانا شروع کر دیئے تو اس کے ساتھ چینی لیبر بھی آئے گی جس کے نتیجے میں پاکستان میں ہر تیسرا شخص چینی نظر آئے گا ۔ آبادی کے لحاظ سے چین دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ۔ چین کو راستوں کے ساتھ اپنی آبادی کھپت کے لئے خطے بھی چاہئیں اور منڈیاں بھی ۔ اگر پاکستان معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہوا اور پاکستان کی صنعتی ترقی دنیا کے ہم قدم نہ ہوئی تو پاکستان بہت پیچھے رہ جائے گا ۔