حب الوطنی اور غداری والا چورن میں بھی بیچنا چاہتا ہوں مگر بدقسمتی دیکھئے کہ اس کی ریسیپی سمجھ نہیں آرہی کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ اگرتلہ سازش کیس سے پاکستان کے دو لخت ہونے کی بنیاد رکھنے والا ایوب خان اور ملٹری آپریشن کے ذریعے اس سانحے کو حتمی مرحلے تک پہنچانے والا یحییٰ خان تو محب وطن رہتا ہے لیکن ایک غلط منسوب بیان ’’ادھر ہم ادھر تم‘‘ کی بنیاد پر ذوالفقار علی بھٹو غدار ہوجاتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے تو اچانک انہیں ’’سکیورٹی رسک‘‘ ہی نہیں بلکہ راجیو گاندھی کی خاص دوست بھی قرار دیدیا جاتا ہے اور تب نواز شریف کو حب الوطنی کے استعارے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس عرصے میں میڈیا کو بینظیر بھٹو کی کردار کشی جبکہ نواز شریف کی عظمت بیان کرنے کے احکامات موصول ہو نے لگتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ کچھ عرصے بعد نواز شریف کو بھی غداری کے الزامات کا یوں سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جب مشرف ان کی حکومت کا تختہ الٹتا ہے تو میڈیا کو ’’ذرائع‘‘ کی بنیاد پر یہ خبر چلانے کا حکم ملتا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کی ایک خفیہ دراز سے وہ فون ملا ہے جس کے ذریعے نواز شریف بھارت کے وزیر اعظم سے خفیہ بات چیت کیا کرتے تھے۔ لیکن اس حوالے سے نہ نواز شریف پر کوئی آرٹیکل 6 لاگو ہوتا ہے اور نہ ہی یہ معاملہ کسی سنجیدہ فورم پر یہ زیر بحث آتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ نواز شریف کے اس لپیٹے گئے دور حکومت میں بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان کے تاریخی دورے پر آتے ہیں تو اس وقت کا آرمی چیف جنرل مشرف یہ کہہ کر ان کے استقبال سے انکار کردیتا ہے کہ میری قومی غیرت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ بھارتی وزیر اعظم کو سلیوٹ کروں۔ وہ جلد کارگل کے راستے اٹل بہاری واجپائی کو اپنی قومی غیرت کا مزید ثبوت بھی دیدیتا ہے۔ یہ سب حب الوطنی کے شاندار مظاہر مانے جاتے ہیں اور وزیر اعظم نواز شریف کی امن کی طرف پیش رفت غداری کے ہی ثبوت بتائے جاتے ہیں۔ نصرت خدا وندی کا نزول ہوتا ہے اور غدار نواز شریف پہلے اٹک قلعے اور پھر لانڈھی جیل کی قید اور آخر میں جلاوطنی کے انجام سے دوچار ہوجاتا ہے اور ملک پر جنرل مشرف کی صورت حب الوطنی کا راج قائم ہوجاتا ہے۔ ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ جس جنرل مشرف نے وردی میں واجپائی کو سلیوٹ سے انکار کیا تھا وہ سارک کانفرنس کے سٹیج پر شیروانی میں اسی واجپائی کو سلیوٹ داغ دیتا ہے حالانکہ سلیوٹ کے لئے لازمی ہے کہ اسے بجا لانے والا وردی میں ہو۔ عجیب بات یہ ہوتی ہے کہ جنرل مشرف اس حرکت پر واجپائی کا یار قرار پاتا ہے اور نہ ہی غدار بلکہ وہ امن کا گوتم بدھ بن جاتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ یہی جنرل مشرف واجپائی سے امن کا تحفہ لانے کی غرض سے آگرہ پہنچتا ہے جہاں اعلامیے کے نام پر اسے انتظار کی ذلت سے گزار کر رات گئے خالی ہاتھ پاکستان بھیج دیا جاتا ہے لیکن یہاں پاکستان میں کوئی بھی اسے قومی ذلت کے طور پر نہیں دیکھتا، حب الوطنی لسی پی کر سوئی رہتی ہے سو کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہماری قومی غیرت داؤ پر لگانے والا جنرل مشرف غدار ہے۔ صرف اسی پر کیا موقوف میں دیکھتا ہوں کہ یہی جنرل مشرف مسئلہ کشمیر پر درپردہ چناب فامولہ قبول کرلیتا ہے جو مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے تاریخی موقف سے انحراف ہوتا ہے لیکن اسے عملی شکل دینے سے محروم رہ جاتا ہے۔ لیکن جب اس کا انکشاف ہوجاتا ہے تو تب بھی مشرف کی حب الوطنی پر کوئی سوال اٹھتا ہے اور نہ ہی کوئی گستاخ اسے غدار کہنے کی جرات کر تا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ 2013ء کے انتخابات قریب آتے ہیں تو عظیم کپتان عمران خان بھارت جا کر وہاں کے ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اعلان فرماتے ہیں کہ ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھارت کو پاکستان سے کراس بارڈر ٹیررازم کی کوئی شکایت نہ رہے گی کیونکہ وہ اس کا مکمل سد باب فرما دیں گے۔ پروگرام کا میزبان حافظ سعید کی حراست کا وعدہ بھی مانگتا ہے تو خان صاحب فرماتے ہیں ہر بات ٹی وی پر نہیں کہی جا سکتی۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ خان صاحب اپنی اس گفتگو میں درحقیقت کراس بارڈر ٹیررازم پر بھارت کا موقف تسلیم کرلیتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالنے کا وعدہ بھی کر لیتے ہیں۔ اور یہ سب بھارت میں بیٹھ کر بھارت کے ٹی وی چینل پر کر آتے ہیں لیکن حیران کن طور پر ان کی حب الوطنی محفوظ رہتی ہے۔ پاشا ئی بادہ شبانہ کے آخری قطرے کی قسم غداری کا کوئی سرٹیفکیٹ انہیں تھمایا جاتا ہے اور نہ ہی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا جاتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ممبئی حملے ہوتے ہیں تو ایک طوفان کھڑا ہوجاتا ہے، بھارت پاکستان پر الزامات کی بھرمار کردیتا ہے۔میں دیکھ بہت چکا اب میں سوچتا ہوں کہ بھارت کے حوالے سے ہمارے ہاں حب الوطنی اور غداری کا معیار کیا ہے ؟ ایک جیسے معاملات میں کوئی غدار تو کوئی محب وطن کیسے رہ جاتا ہے ؟