معیشت کی بدحالی اور طبقاتی استحصال سے معاشروں میں انقلاب کیسے جنم لیتا ہے اور ان میں "انارکی" یعنی افراتفری کیسے پیدا ہوتی ہے، یہ سوال گزشتہ کئی صدیوں سے مفکرین کے اذہان پر دستک دیتا رہا ہے اور افلاطون کی "الجمہوریہ" سے لے کر آج تک لوگ اسکے جواب کی تلاش میں ہیں۔ گذشتہ صدی کی دو کتابیں اس سوال اور اسکے تاریخ میں دیے گئے جوابات کا نچوڑ ہیں۔ انسانی ذہن میں معاشی بدحالی سے جنم لینے والے روّیوں کو دو انقلابات میں تقسیم کیا گیا ہے 1) سوشلسٹ یا کیمونسٹ تبدیلی اور 2) انارکسٹ (Anarchist) تبدیلی۔ سوشلسٹ تبدیلی کی تاریخ کو الیگزینڈر گرے Grey) (Alexander نے اپنی کتاب "سوشلسٹ روایت : موسیٰ سے لینن تک" میں ستمبر 1944 ء میں مرتب کیا۔ الیگزینڈر گرے سکاٹ لینڈ میں 1882 v میں پیدا ہوا۔ اس نے زندگی ایک بیوروکریٹ کی حیثیت سے گزاری لیکن اسکی شہرت ایک معیشت دان کے طور پرمسلم ہے ۔ کسقدر حیرانی کی بات ہے کہ برصغیر میں کیمونسٹ تحریک کے طالب علم اور سکہ بند انقلابی ایک بڑی شخصیت سید سبط حسن کا اس وجہ سے مدتوں احترام کرتے رہے کہ انہوں نے "موسیٰ سے مارکس تک" لکھی جو انقلابی تاریخ کی واحد مستند کتاب سمجھی جاتی ہے۔ شاید اسوقت تک انگریزی پڑھنے والے بہت کم تھے اس لئے سید سبط حسن کی کتاب کو پڑھنے والے اسے مدتوں ایک عظیم اور اصلی طبع زاد کتاب ہی سمجھتے رہے۔ جبکہ الیگزینڈر گرے کی کتاب کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس نے انقلابی تصورات کی تاریخ کو مار کس تک نہیں تحریر کیا بلکہ اسکے بعد لینن کی عملی انقلابی تشکیل بھی بیان کردی۔ اس کتاب کا ترجمہ یاسر جواد نے بڑی دیر سے کیا ہے ،نہ کرتے تو سید سبط حسن صاحب کی کتاب کا سحر آج بھی قائم رہتا۔ دوسری کتاب 1869 ء میں پیدا ہونے والی مشہور انارکسٹ ایما گولڈ مین ) Goldman (Emma کی کتاب "Living my life" ہے۔ یہ ایک خاتون کی خود نوشت ہے جس کا محمد مظاہر صاحب نے "سرخ رو" کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔ ترجمہ کرتے وقت انہوں نے دیباچے میں تحریر کیا ہے کہ "اگر آپ ناول پڑھنے کے شوقین ہیں تو یہ علی پور کے ایلی سے بڑھ کر ہے، جسے ایک عورت نے تصنیف کیا ہے۔ ہاں اگر آپ تاریخ کے آدمی ہی تو یہ کتاب آپ کو تاریخ کی انچاس کتابوں سے بے نیاز کر دے گی۔ اور اگر آپ سائنسی ذہن رکھتے ہیں تو یہ کتاب آپ کو بتائے گی کہ چاند کے عقب میں کیا ہے"۔ ایما گولڈ مین دراصل انارکسٹ نظریے کی قائل تھی جسکے بارے میں وہ خود کہتی ہے کہ "انارکزم" ذہن کو مذہب کی گرفت، انسانی جسم کو جائیداد اور ملکیت کے شکنجے اور حکومتی جبر و استبداد سے گلو خلاصی دیتا ہے۔ ان دونوں کتابوں کا تذکرہ اس لیے ضروری تھا کہ آج کی دنیا میں انقلاب، تبدیلی، انارکی، افراتفری اور معاشرتی ہیجان کے پیمانے بالکل بدل چکے ہیں اور سب کچھ موجودہ سودی مالیاتی نظام کے تناظر میں پرکھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک میں بے چینی اور افراتفری اس لیے پیدا ہوگی ،کیونکہ وہاں کی کرنسی کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں گر رہی ہے ، وہاں سرمایہ کاری ختم ہو کر رہ گئی ہے، اس ملک کی سٹاک ایکسچینج بیٹھ چکی ہے اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ آج کے جدید میڈیا میں یہ تجزیہ اس وجہ سے درست مانا جاتا ہے کہ جب اس عالمی مالیاتی نظام کے کرتا دھرتا کسی ملک کے نظام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں اسے اپنا سرمایہ نکال لیتے ہیں، فیکٹریاں بند ہو جاتی ہیں، اور پھر عالمی سطح پر اس ملک کی کرنسی کی قیمت گرنے لگتی ہے۔ اس سے ایک ایسا بحران پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کی تمام بچت ختم ہو جاتی ہے اور تنگ آئے ہوئے لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ انڈونیشیا، وینزویلا، یونان اور دیگر ملکوں کی مثالیں کی جاتی ہیں اور پھر دنیا بھر کے تبصرہ نگار اور میرے ملک کا دانشور ان ملکوں کی مثالوں کا پاکستانی معاشرے پر اطلاق کرنے لگتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کے بارے میں یہی وہ بنیادی غلطی ہے جو گزشتہ ایک صدی سے کیمونسٹ اور انارکسٹ اس برصغیر پاک و ہند کے بارے میں کرتے رہے اور ناکام رہے اور وہی غلطی موجودہ تجزیہ نگار کر رہے ہیں۔ پاکستان بلکہ پاک و ہند کا معاشرہ اپنے اندر ایک ایسا معاشی استحکام رکھتا ہے کہ یہاں کوئی ایسی تحریک جس کی جڑیں معاشی بدحالی سے منسلک ہوں، کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جس وقت یورپ میں صنعتی انقلاب آرہا تھا اور گاؤں سے مزدور کھیت کھلیان چھوڑ کر ملوں اور کارخانوں میں جمع ہو رہے تھے تو ایسے میں کارل مارکس یہ خواب دیکھ رہا تھا کہ جوں جوں مزدور کارخانوں میں اکٹھا ہوں گے یہ ایک تحریک کا منظم گروہ بن جائیں گے اور پھر یہ جتھے ایک دن ان مشینوں پر قابض سرمایہ داروں کو اتار پھینکیں گے اور پرولتاریہ کی حکومت قائم کردیں گے۔یہی خواب انارکسٹ دیکھتے تھے کہ جب شہری زندگی ترقی کرے گی، عورتوں میں آزادی کی خواہش جاگے گی، مزدور آقا سے آزاد ہونا چاہے گا تو وہ ایک دن ایک ہجوم کی صورت سب کچھ تباہ کر دے گا۔ اقدار ،خاندان، پڑوس، حکومت، ریاست، سب اس طوفان میں بہہ جائیں گے۔ یورپ کے صنعتی انقلاب کے وقت برصغیر کا سماجی نظام بہت مضبوط تھا اور اس میں اب تک کوئی فرق نہیں آیا۔برصغیر کا سماجی نظام ایک ایسی اکائی ہے کہ اس میں کوئی بھی فرد کبھی اس قدر مجبور و لاچار نہیں ہوتا کہ اس پر پر فاقوں کی نوبت آجائے، وہ بے آسرا ہو جائے یا پھر خود کشی پر مجبور ہو جائے۔ ستر فیصد سے زیادہ آبادی جو دیہات میں رہتی ہے، اسکی زندگی کے معمولات پر سٹاک ایکسچینج کی مندی اثرانداز نہیں ہوتی، کسی فیکٹری کی تالا بندی یا سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کا انکی کی روزمرہ معیشت سے کوئی تعلق نہیں۔ اناج، سبزیاں یہاں تک کہ گوشت کے لیے بھی انہیں بازار کا رخ نہیں کرنا پڑتا۔ کپڑے جوتے تک کے لئے فیکٹری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگر ساری فیکٹریاں کپڑے، جوتے، شیمپو، ٹوتھ پیسٹ اور صابن وغیرہ بنانا بندبھی کر دیں تو اس ستر فیصد دیہی زندگی کی مشکلات میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ گاؤں کی اکائی میں خاندان، برادری اور محلہ داری کسی کو بھوک اور بے روزگاری میں تنہا نہیں چھوڑتی۔ اس ستر فیصد آبادی میں شاید ایک فیصد ایسے ہوں جو کسی بینک کا رخ کریں یا کسی کتابی معیشت کے اعداد و شمار میں ان کا ذکر ہو۔ اب اس تیس فیصدشہری آبادی کی طرف آتے ہیں جو شہروں اور قصبوں میں آباد ہے۔ ان میں مزدور ہیں جن کا نوے فیصد سے زیادہ ابھی تک دیہات سے منسلک معیشت رکھتا ہے۔ فیکٹری کی تنخواہ کے ساتھ گھر میں دو بھینسیں رکھی ہیں یا گھر کے دوسرے افراد کھیت کھلیان میں مزدوری کرتے ہیں اور یوں ایک بڑے خاندان کی ایسی اجتماعی معیشت چلتی ہے، جس میں تین چار بھائیوں کا کنبہ مل کر ایک دوسرے کی ضروریات کا سامان مہیا کر رہا ہوتا ہے۔ اگر ایسے ہی کسی مزدور کو صرف اور صرف فیکٹری کی تنخواہ پر گزارا کرنا پڑ جائے تو وہ چند ماہ بعد گاؤں واپس لوٹ جاتا ہے۔ اس تیس فیصدشہری آبادی میں تقریبا پانچ فیصد ایسا طبقہ بھی ہے جس پر مہنگائی، کساد بازاری اور معیشت کی تباہی کا معمولی سا اثر اگر ہوتا ہے تو وہ فورا سنبھل جاتا ہے۔ اسے نہ ہی اس ملک سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی اسکی کامیابی سیکوئی سروکار۔ اسے حالات سازگار نہیں ملیں گے تو وہ اپنی فیکٹری اٹھائے گا اور کینیا یا بنگلہ دیش چلا جائے گا اور اس کی جگہ پاکستان میں ایک بڑا شاپنگ مال بنائے گا اور بیرون ملک سے اشیاء منگوا کر کاروبار کرے گا اور دن رات منافع کمائے گا۔ یہ وہ نا شکرا اور احسان فراموش طبقہ ہے جسکے پاس کئی کنال کے گھر ہوں گے، ہر گھر میں کئی کئی گاڑیاں کھڑی ہوگی، بیرون ملک لگائی گئی فیکٹریوں کی آمدنی آرہی ہوگی، پاکستان میں موجود فیکٹریوں کو اس نے بیرون ملک برانڈڈ فرموں کا مال بنانے کے لیے مختص کیا ہوگا، وہ اس ملک کی سہولیات سیدن رات فائدہ اٹھائے گا لیکن مسلسل اس ملک کے حالات کا رونا روتا رہے گا۔ گذشتہ پچاس سالوں سے میں نے ان "عظیم سرمایہ کاروں " کو صرف معیشت کا ماتم کرتے ہوئے ہی دیکھا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انکے نزدیک اس "بدترین معیشت" میں انکی فیکٹریوں، پلازوں اور جائیدادوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ (جاری ہے)