مولانا فضل الرحمن اپنی دھن کے پکے اور اپنے ارادے کے سچے نکلے۔ انہوں نے کچھ کر کے دکھا دیا جس کا انہوں نے اعلان کیا تھا۔ مولانا کی کال پر اسلام آباد میں پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتوں کی مرکزی قیادت کانفرنس میں موجود تھیں۔ کچھ لوگوں نے اپوزیشن کے پہلے ہی اجلاس سے نہ جانے کیا کیا توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ اس لئے وہ بقول غالب مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں: تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا سیاسی تحریکیں کوئی ’’تماشا‘‘ نہیں ہوتیں کہ آناً فاناً برپا ہو جائیں۔ یہ تحریک کے لئے درکار سارے موافق و ساز گار حالات کو سٹڈی کرنے اور انہیں یکجا کرنے کا نام ہے۔ اپوزیشن کی متحدہ تحریک میں چونکہ مختلف جماعتیں شامل ہوتی ہیں ان سب کی اپنی الگ سوچ اور اپروچ ہوتی ہے۔ لہٰذا انہیں ایک متحدہ و متفقہ منزل کے لئے آمادہ کرنا اور اس منزل کی طرف پیش قدمی کرنے کے مختلف طریقوں اور راستوں کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے یہ پہلا مرحلہ نہایت خوبی اور خوش اسلوبی سے مکمل کر لیا ہے اور اس میں بڑی بنیادی اہمیت کے فیصلے کر لئے ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس کے پہلے ہی اجلاس میں چیئرمین سینٹ کی تبدیلی کا متفقہ فیصلہ کر لیا گیا ہے جو دوررس اہمیت کا حامل ہے۔ جب سینٹ کا چیئرمین اپوزیشن کا اپنا بااعتماد ممبر ہو گا تو پھر سینٹ کو قومی اسمبلی کی مختصر عددی حکومتی اکثریت کا توڑ کرنے میں بہت آسانی ہو گی۔ اول روز سے ہی اپوزیشن نے موجودہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی کو مسترد کر دیا تھا۔ اس لئے وسیع پیمانے پر 25جولائی کو یوم سیاہ منانے کا فیصلہ اپوزیشن کی ہمنوائی کا بڑا واضح ثبوت فراہم کر رہا ہے۔ کانفرنس میں بجٹ کو عوام دشمن قرار دیا گیا ہے اور اس کی بھر پور مخالفت کا تہیہ ظاہر کیا گیاہے۔ عدالتوں کے واجب الاحترام ججز صاحبان کے خلاف ریفرنسوں کو مسترد کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ جہاں تک مولانا فضل الرحمن کا تعلق ہے تو وہ اس حکومت کے خلاف تیغِ بُرّاں بنے ہوئے ہیں بلکہ سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا ان کا بس چلے تو وہ ایک ہی وار سے حکومت کا کام تمام کر دیں مگر بڑی سیاسی جماعتوں کی جواں سال قیادتوں کا موقف مختلف ہے۔ ان کے خیال میں حکومت کے خلاف لاوا کھول رہا ہے جب یہ لاوا مکمل طور پر پک جائے گا اور خود پھٹ پڑے گا تب وہ موقع ہو گا جب گرتی ہوئی حکومت کو شاید دھکا دینے کی ضرورت بھی نہ پڑے گی۔ اس وقت معیشت جس تباہی سے دوچار ہے اس کے بارے حقائق اور اعداد و شمار کے ساتھ اپوزیشن وہ خوفناک تصویر عوام کے سامنے نہیں لا سکی۔مہنگائی خاتمے کا مطالبہ اے پی سی کی قرار دادوں میں سب سے اوپر ہونا چاہیے تھا۔ عوام کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں کہ بنی گالہ کی بلند و بالا چوٹیوں کے مکین اعلیٰ جناب عمران خان نے بھی سن لی ہیں اور انہوں نے کمال لطف و عنایت سے مہنگائی اور مزید مہنگائی کا زبانی نوٹس لے لیا ہے۔ خان صاحب کی سادگی قابل داد ہے کہ کیا انہیں معلوم نہیں کہ مہنگائی ان کے آئی ایم ایف بجٹ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ وہ گیس جسے سستا کرنے کے لئے کئی بار عمران خان عوام کو خوش خبری سناتے رہے اسے 190فیصد مہنگا کر دیا گیاہے۔ بجلی بے پناہ مہنگی ہو چکی ہے۔سفید پوشوں نے اس قیامت خیز گرمی میں اپنے ایئر کنڈیشنروں پر غلاف چڑھا دیے ہیں اور صرف ایک کولر چلاتے ہیں جس کا بل 20ہزار روپے سے کم نہیں آتا۔ ڈالر 160روپے کا ہو چکا ہے۔ جی ہاں وہی ڈالر جس کے بارے میں خان صاحب کہا کرتے تھے کہ ڈالر 60روپے کا تھا جسے گزشتہ حکومتوں نے 120پر پہنچا دیا۔ جس کا مطلب یہ ہوا میرے پاکستانیو! کہ آپ کے بنک میں جو 100روپے پڑے تھے وہ 50رہ گئے ہیں۔ اور اب خان صاحب کے اقدامات سے وہی سو روپیہ نئے پاکستان میں شاید 30یا 35روپے رہ گیا ہو گا۔ آج ہی رئیل اسٹیٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان طرف سے اخبارات میں اپیل شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی موجودہ پالیسیوں اور ٹیکسوں نے رئیل اسٹیٹ اور ہائوسنگ سیکٹر کا گلا گھونٹ دیا ہے گیا۔ تقریباً 72مختلف صنعتیں اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ اس شعبے میں زیادہ تر سرمایہ کاری اور خریدو فروخت اوور سیز پاکستانیوں کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اگر یہ زرمبادلہ آنا بند ہو گیا تو کم ازکم ایک کروڑ لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔اس حکومت کا سب سے بڑا بیانیہ بھی غلط ثابت ہو چکا ہے۔ حکومت کا بیانیہ تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے اس حکومت کی کارکردگی نے ثابت کر دیا ہے کہ بے شک کرپشن کسی ملک کے زہر قاتل ہے مگر اس سے بھی بڑا مسئلہ جس سے پی ٹی آئی دوچار ہے وہ نااہلیت ہے‘ عدم صلاحیت اور مہارت کی قلت ہے۔ یہ حکومت اپنی سیاسی‘ اقتصادی اور اخلاقی ساکھ کھو چکی ہے۔ جہاں ڈالر 160کا‘ سونا فی تولہ 81.500کا اور سٹاک مارکیٹ مندی سے مندی کا شکار ہو اور شرح نمو 2.7پر آ چکی ہو وہاں لوگ زندہ کیسے رہیں گے؟ جماعت اسلامی مولانا فضل الرحمن کی بھر پور درخواست کے باوجود آل پارٹیز کانفرنس میں شامل نہیں ہوئی۔ بی این پی کے اختر مینگل نے بھی شرکت نہیں کی مگر وہ پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے پھر طواف کوئے ملامت کو چلے گئے اور عمران خان نے ان سے وعدوں کی تجدید کا عہد کیا ہے۔ جماعت اسلامی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو موروثی جماعت نہیں‘ یہ واحد جماعت ہے جس میں باقاعدہ داخلی انتخابات ہوتے ہیں‘ یہ واحد جماعت ہے جس کے اندر خود احتسابی کا بڑا کڑا نظام ہے‘ یہ واحد جماعت ہے جس کی جڑیں نیچے عوام میں ہیں‘ یہ واحد جماعت ہے کہ جس کی دیانت و امانت کی دوست تو دوست دشمن بھی تعریف کرتے ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ جماعت کو سیاسی کامیابی حاصل نہیں ہوتی؟ سبب اس کا یہ ہے کہ جماعت اسلامی ہر سیاسی موڑ پر غیر سیاسی اور غیر مقبول فیصلہ کرتی ہے۔ اس وقت جماعت حکومت کے ساتھ ہے نہ اپوزیشن کے ساتھ اور میدان میں تن تنہا کھڑی ہے اور اس شان سے کھڑی ہے کہ دیر اور بونیر جیسے اپنے مستقل حلقوں سے بھی ہار چکی ہے اور کسی حلقے میں اسے دو ہزار ووٹ ملتے ہیں اور کسی میں چار ہزار۔2008ء وہ وقت تھا جب مجلس عمل والی 2002ء کی اسمبلی کی 28نشستوں کے بعد جماعت کو کم از کم 40سے 50نشستیں ملنے کی توقع تھی مگر قاضی حسین احمد مرحوم نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر غیر سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ اب جماعت اسلامی کا بیانیہ بھی وہی تھا کہ جو متحدہ اپوزیشن کا ہے ۔ موجودہ حکومت نے اپنی نااہلیت سے معیشت کو تباہی سے دوچار کر دیا ہے اور لوگ ناقابل برداشت مہنگائی کے ہاتھوں بلبلا اٹھے ہیں۔ پھر اپوزیشن کے پلڑے میں جماعت نے اپنا وزن کیوں نہیں ڈالا۔ مولانا مودودیؒ نے جمہوریت اور بنیادی حقوق کے لئے ہمیشہ سوادِ اعظم کا ثبوت دیا تھا اور ایوب خان کے خلاف مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔جماعت اسلامی پاکستان قومی اتحاد کا بھی حصہ تھی۔یوںلگتا ہے کہ ان دنوں شاید سوشل میڈیا پر بعض ناپختہ آرا والے دو چار گروپوں کی پوسٹیںجماعت اسلامی کی پالیسیوں پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ پاکستان میں جماعت اسلامی جیسی سیاسی طور پر چھوٹی جماعت کو کسی اتحاد کا حصہ بنے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اپنی قوت کا غیر حقیقت پسندانہ تخمینہ جماعت کی سیاست کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ جماعت نہ جانے کیوں آئے روز کبھی ایم ایم اے سے کٹی کر لیتی ہے اور کبھی اس سے ناتا جوڑ لیتی ہے۔ جماعت کی انتخابی تاریخ گواہ ہے کہ ایم ایم اے سے ہی جماعت کو شاندار کامیابی ملی۔ جماعت ایم ایم اے کا حصہ رہ کر ہی سیاسی میدان میں آگے بڑھ سکتی ہے۔