پاکستان کی معیشت جن سنگین مسائل سے دوچار ہے ان کوحل کرنے کے لیے کم سے کم دس بارہ سال درکار ہیں‘ وہ بھی اگر آج حکومت اور سرمایہ کار مل کر دُرست سمت میں کام کا آغاز کریں اور عوام کڑوی گولی کھائیں‘ ہمارا دولت مند اور متوسط طبقہ شاہ خرچیاں کم کرے ۔ بصورت دیگر ہماری ناتواںمعیشت یونہی ہچکولے کھاتے ‘ گرتی پڑتی چلتی رہے گی۔ ہر حکومت عوام کو طفل تسلیاں دیتی رہے گی۔ ذرا دیر کونواز شریف کے گزشتہ دور میں چلتے ہیں۔ ملک کے برآمدات بیس ارب ڈالر تھیں‘ بیرن ملک سے پاکستانی اٹھارہ ارب ڈالرکا زرمبادلہ بھیج رہے تھے۔ یوںکُل ملا کر ہمارے پاس اڑتیس ارب ڈالر کا زرمبادلہ تھا۔ اس میں سے دس ارب ڈالر ہم نے بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں دینا تھے۔ باقی بچے اٹھائیس ارب ڈالر۔ یہ وہ رقم تھی جس سے ہم بیرون ممالک سے چیزیںدر آمد کرسکتے تھے۔ لیکن ہم نے درآمدات کے دروازے پٹ کھولے ہوئے تھے اور ساٹھ ارب ڈالر کی چیزیں درآمد کررہے تھے۔ یعنی جتنا زرمبادلہ دستیاب تھا اس سے دُگنا خرچ کررہے تھے۔ یہ اضافی زرمبادلہ بیرونی قرضوں سے آرہا تھا۔ معیشت کا بیڑہ غرق تو ہونا ہی تھا! یہی کام ہم عرصۂ دراز سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ کبھی کم‘ کبھی زیادہ۔ نواز شریف کے ہر دورحکومت میں فضول خرچی کے پھاٹک کھول دیے جاتے تھے‘ عوام سمجھتے تھے کہ خوشحالی آگئی ‘ تجارت بڑھ گئی لیکن اس کی تہہ میںقرضوں کا بھاری بوجھ ہوا کرتا تھا۔یہ صورتحال طویل عرصہ تک جاری نہیں رہ سکتی۔ ہمیں اپنی چادر کے مطابق پائوں پھیلانے کی عادت ہونی چاہیے۔ جتنا زرمبادلہ ملک کو میسرہے صرف اس کے مطابق چیزیں باہر سے منگوانی چاہئیں تب ہی ہماری معیشت مستحکم ہوسکتی ہے۔ ورنہ یونہی کبھی ہم سعودی عرب کے سامنے ہاتھ پھیلائیں گے‘ کبھی متحدہ عرب امارات کے سامنے‘ کبھی چین کے پاس کشکول لے جائیں گے‘ کبھی عالمی مالیاتی فنڈز کے پاس۔موجودہ حکومت نے درآمدات کو کنٹرول کیا ہے‘ تجارتی خسارہ کم کیا ہے لیکن پوری طرح نہیں۔ درآمدات کو مزید کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم زیادہ تر وہی اشیاء استعمال کرنی چاہئیں جو ہمارے ملک میں پیدا ہوتی ہیں یا بنائی جاتی ہیں۔پیٹرول‘ قدرتی گیس ملک میںضرورت کے مطابق نہیںہیں تو ہمیں انہیں کفایت شعاری سے استعمال کرناچاہیے تاکہ ان کی درآمدکم کرنی پڑے۔دنیا شمسی توانائی سے فائدہ اٹُھا رہی ہے۔ ہم بھی بتدریج اس پر منتقل ہو جائیں تو تیل‘ گیس پر انحصار کم ہوجائے۔ جتنی سہولت کی زندگی پاکستان کے لوگ گزارنا چاہتے ہیں اسکے لیے وسائل ملک میں ابھی دستیاب نہیں ۔ لوگوں کی حد سے بڑھی خواہشات کی خاطر ملک کو گروی نہیں رکھا جاسکتا۔ماضی میں آصف زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں نے بیرونی قرضے لینے کو ائیرپورٹس‘ موٹرویز اور اہم عمارتیں رہن رکھیں ‘یہ انہوں نے بڑا ظلم کیا۔اس کا خمیازہ ہمیں خاصی دیر تک بھگتنا پڑے گا۔ان قرضوں کواُتارنے کے لیے مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ یہ قرضوں کا منحوس چکر ہے جس سے جان چھڑانے کے لیے پاکستان کے لوگوں کو کڑوی گولی نگلنا پڑے گی۔ پاکستانی معیشت کی بڑی خرابی اس کی کمزورصنعتی بنیا د ہے۔ ہم اتنی چیزیں نہیں بناتے جن کی ہمیں ضرورت ہے۔ زیادہ تر چیزیں باہر کے ملکوں سے درآمد کرتے ہیں۔ اور دوسرے ملکوںکو درکار اشیا بھی ہم مینوفیکچر نہیں کرتے جس سے زرمبادلہ کما سکیں۔ تھوڑی سی رقم ٹیکسٹائل‘ چاول ‘ چمڑے کا سامان اور کھیلوں کاسامان بنا کر کماتے ہیں لیکن وہ ہماری ضرورت سے بہت کم ہے۔ ہمیں سلے ہوئے کپڑے‘ موبائل فون‘ کاریں‘ سافٹ ویئر‘ مشینری‘ کیمیکلز‘ الیکٹرانک کا سامان بنا کر دنیا کوبرآمد کرنا چاہیے۔ ہم سے کہیں آگے تو بنگلہ دیش ہے جو چالیس ارب ڈالر سالانہ کی برآمدات کرتا ہے۔ ہم پچیس ارب ڈالر سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ بھارت کی برآمدات سوا چارسو ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ پاکستان جتنا بڑا ملک ہے‘ اسکی جتنی بڑی آبادی ہے اس کی برآمدات اس وقت کم سے کم سو ارب ڈالر ہونی چاہئے تھیں۔ پاکستان کا مالدار طبقہ پراپرٹی کے کام میں مگن ہے‘ پلاٹ خریدو‘ پلاٹ بیچو۔ کوئی قوم رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے خوشحال نہیں ہوئی۔ پیسہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جاتا رہتا ہے‘ کوئی پیداوار نہیں ہوتی‘ باہر سے کوئی دولت ملک میں نہیں آتی۔گزشتہ دنوں ہماری اسٹاک مارکیٹ میں باہر سے ایک دو ارب ڈالر آگئے تو ہم خوش ہورہے ہیں۔ جب بیرونی سرمایہ کار منافع بٹور کر چلے جائیں گے تو ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ ماضی میں کئی بار ایسا ہوچکا ہے۔اصل پائیدارمعاشی ترقی صنعتی پیداوار سے ہوتی ہے جس پر ہمارا بہت کم دھیان ہے۔ کوئی قسمت کا ماراسرمایہ کار صنعت لگا لے تو دس پندرہ سرکاری اداروں کے اہلکار اس پررشوت خوری کرنے کو ٹوٹ پڑتے ہیں۔اب حکومت معاشی زون بنانے جارہی ہے جہاں صنعتیں لگانے کی ترغیب دی جائے گی۔ حکومت کو پالیسی بنانی چاہیے کہ ان زونز میںپہلے تین سال کوئی سرکاری اہلکار داخل نہ ہو تاکہ ُاسے ٹھگّی کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ ایک اتھارٹی ہو اس کے ذریعے سرمایہ کاروں کے سارے کام کروائے جائیںجیسا کہ بجلی‘ گیس کی فراہمی۔ جب صنعتی پیداوار بڑھے گی تو روزگار پیدا ہوگا‘ حکومت کے ٹیکسوں میں اضافہ ہوگا اور زرمبادلہ کا دائمی بحران بھی حل ہوگا۔ ہمارے ہاںکچھ پیشہ ور ماہرین معیشت ہیںجن کا ایمان موقع پرستی ہے۔ جب ان کے پاس کوئی بڑا سرکاری عہدہ نہیں ہوتا تو اخباروں میں مضمون لکھتے رہتے ہیں‘ ٹیلی وژن پر انٹرویو دیتے ہیں کہ معیشت تباہ ہوگئی‘ اس کے منفی پہلو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ جیسے ہی حکومت انہیں کسی بڑے عہدہ پر فائز کردیتی ہے تو خامو ش ہوجاتے ہیں یا معیشت کے روشن پہلو اجاگر کرنے لگتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں لوگوں کو آدھا سچ بتاتے ہیں۔ پُورا سچ یہ ہے کہ پاکستانی معیشت کی ساخت کمزور ہے۔ اس کی بُنت میں خرابی ہے۔ اسکی عارضی مرمت کی بجائے مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور خوشحال طبقات فضول خرچیاں کم کریں‘ ملک میں جدید تعلیم کے فروغ اورتیز رفتار صنعتی ترقی پرآج سے کام شروع کیا جائے تو دس بارہ سال میں معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگی۔