چونکہ موصوف علیگڑھ کے فارغ التحصیل ہیں نیزپاکستانی چینل کے نمائندے ا ور سیفماکے رکن کی حیثیت سے پاکستان آنا جانا رہتا تھا، اسلئے اسلام سے متعلق واجبی سی اور مسلمانوں کے بارے میں سیر حاصل معلومات رکھتے ہیں۔ جب ان کی اس روش کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے تو ہمدردی بٹورنے کیلئے اظہار آزادی رائے کو آڑ بناکر مسلمانوں کے رویہ کو نشانہ بناتے ہیں۔ گو کہ بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچہ میں دفعہ 19کے تحت اظہار آزادی رائے کو شامل کیا گیا ہے، مگر اس کے ساتھ مناسب پابندیا ں بھی لگائی گئی ہیں، جن کو وقتاً فوقتاً عدالتوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔ ہتک عزت، توہین عدالت، قومی سلامتی، دوست ممالک کے ساتھ رشتہ خراب کرنا، عوام کو جرم پر آمادہ کرنااور نظم و نسق کو بگاڑنے جیسے ایشوز کو اظہار آزادی رائے سے الگ رکھا گیا ہے۔ بھارت میں اسوقت لگ بھگ 106کتابوں پر پابندی عائد ہے۔ حال ہی میں سوئیندرا شیکھر کی آدی واسیوں یعنی قبائلیوں پر لکھی کتاب Adivasis Will Not Danceپر پابندی لگائی گئی۔ اس سے قبل 2015 میں بھارت میں تامل زبان کے ناول نگار رپرومل موروگن کی ناول کے انگریزی ترجمے پر اس وجہ سے پابندی لگادی گئی ، کیونکہ اس میںمصنف نے ہندو مذہب کی قدیم رسم ’’نیوگ‘‘ کے بارے میں لکھا تھا۔ نیوگ رسم کے مطابق کوئی بے اولاد عورت بچہ پیدا کرنے کے لیے کسی غیر مرد یا پنڈ ت سے جنسی تعلقات قائم کرتی تھی اورا س رسم کو سماجی قدیم بھارت میں قبولیت حاصل تھی۔موروگن نے اس ناول میں ذات پر مبنی طبقاتی کشمکش اور ظلم اور معاشرے کی برائیوں پر نکتہ چینی کی تھی، جس سے ایک خاندان بکھر جاتا ہے اور ان کی ازدواجی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔نہ صرف ان کی ناول پر پابندی عائد کی گئی، بلکہ ناشرین کو ہدایت دی گئی، کہ اس کتاب کی سبھی کاپیاں جلا دیں۔ یہ تو صرف چند واقعات ہیںجن کا ذکر برسبیل تذکرہ آگیا ہے ورنہ ایسے واقعات کی گنتی مشکل ہے۔ اسی طرح یورپی ممالک نے بھی اظہار آزادی رائے پر مناسب پابندی کے قوانین پاس کئے ہیں۔ حال ہی میں لندن کی ویسٹ منسٹر کورٹ نے موسیقار آلیسن چابلوز کو ہولوکاسٹ کی نفی کرنے اور یہودیوں کے خلاف نفرت آمیز مواد شائع کرنے پر 20ہفتے جیل کی سزا سنائی اور ایک سال تک سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر پابندی لگائی۔ جج کرسٹوفر ہیہیر نے ملزم کے اظہارآزادی رائے کے دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ، کہ نفرت پھیلانے کی آزادی نہیں دی جاسکتی ہے۔ فرانس نے ابھی تک خود چھ مصنفین جین میری لی پین، روجر گاروڈی، جین پلانٹین، رابرٹ فاویسون اور وینسینٹ رینورڈ کو سزائیں دی ہیں۔ جس میں جرمانہ اور چھ ماہ سے ایک سال تک کی قید بھی شامل ہے۔ گو کہ ہولوکاسٹ کو مناسب پابندیوں کے زمرے میں رکھنے پر کوئی اختلاف نہیں ہے، مگر اظہار آزادی رائے کے دوہرے پیمانے اب ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ایک جمہوری معاشرہ کی بنیاد ہی اظہار رائے کی آزادی ہے، مگر کسی بھی مہذب سوسائٹی میں آزادی مطلق نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر سوسائٹی میں کسی بھی طرح کا کنٹرول نہ ہو، تو کمزوروں کے حقوق پامال ہونگے اور انارکی کی سی کیفیت پیدا ہوگی۔ صحافتی اقدار اور آزادی کو اس قدر بے لگام نہیں چھوڑا جاسکتا ہے ، جس سے ایک اور ہولوکاسٹ کے حالات پیدا ہو جائیں۔ معاشروں میں قوت برداشت، لبرل رویوںاور تکثیری اقدار کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں پر بھی لازم ہے کہ معاشرہ میں مثبت سرگرم رول ادا کرتے ہوئے، اپنے پڑوسیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مکالمہ کریں۔ ان کے سکھ دکھ میں شریک ہوں۔ ان کی بتانے کی ضروت ہے کہ قرآن کا پیغام مسلمانوں کیلئے ہی نہیں ، بلکہ پوری انسایت کیلئے ہے۔ بائیں بازو کے ایک مفکر کوبڈ گاندھی جو دہلی کی تہاڑ جیل میں پارلیمنٹ حملہ میں پھانسی کی سزا پا چکے کشمیر ی نوجوان افضل گورو کے ساتھ کئی ماہ سیل میں ساتھ تھے، کا کہنا ہے کہ افضل کے ساتھ گفتگو کے دورا ن ان کو پتہ چلا کہ کمیونزم کے سماجی انصاف و برابری کا سبق تو اسلام 1400سال قبل سنا چکا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کو تفرقوں کے کوزے سے باہر نکال کر اپنے کردار و اعمال سے ثابت کریں کہ اسکے افکار و نظریات ہی واقعی انسانیت کی معراج ہے۔ اس سے بڑی ذمہ داری اسلامی سربراہان پر آن پڑی ہے۔ چند برس قبل سعودی عرب نے کنیڈا کے ساتھ اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات اس وجہ سے ختم کرلئے، کیونکہ کنیڈا نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورت حال پر احتجاج درج کروایا تھا۔ کاش ایسا ہی موقف ان ممالک کے خلاف بھی اپنایا جاتا جو اظہار آزادی کی آڑ میں ان خاکوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ اگر مسلم ممالک کے حکمران بے حسی اور بزدلی کے آئے د ن ثبوت فراہم نہ کرواتے اور جسد ملت اپنی روح کے ساتھ موجود ہوتی، تو مغربی دنیا میں کسی کو خاکے بنانے کی ہمت نہ ہوتی ۔ ا ب بھی وقت ہے کہ اسلامی ممالک کے سربراہان کا اجلاس طلب کرکے متفقہ طور پر توہین رسالت کے حوالے سے مغربی ممالک کیلئے ایسی ہی ریڈ لائن طے کریں، جس طرح اسرائیل نے ہولوکاسٹ کے حوالے سے طے کی ہوئی ہے۔مغرب کے موجودہ طرز عمل سے نہ صرف دونوں طرف کے انتہا پسندوں کو شہہ ملتی ہے، بلکہ امن عالم بھی شدید خطرے سے دوچار ہو رہا ہے۔ یہ تو اظہرمن الشمس ہے کہ مغرب میں کچے اذہان کو ایک اور ہولوکاسٹ کیلئے تیار کیا جا رہا ہے ، جس کا تدارک کرنا ضروری ہے۔ اسلامی ممالک اگر اب بھی نہ جاگے، تو بے حسی اور بزدلی کی تاریخ کا حصہ بن کے رہ جائینگے۔ (ختم شد)