نوٹ:فرانسیسی زبان میں چھپنے والے اِس اِشتہار کا ترجمہ ہم نے پاکستان میں فرنچ پڑھانے والے ایک پروفیسر صاحب سے کروایا ہے۔ اگر ترجمے میں کوئی کمی بیشی ہو گئی ہو تو اِس کی تمام تر ذ ِ ّمے داری پروفیسر صاحب پر عائد ہو گی: قارئین کرام! ہماری فرم نے دروغ گوئی میں یکتا ، معروف کمپیوٹر انجینئر مسٹر دیرک کیپلی کی مد دسے ایک ایسا کمپیوٹر ایجاد کیا ہے جو آپ کی اِزدواجی ز ِندگی میں اِنقلاب برپا کردے گا۔موجودہ دور میں شوہروں کو کئی ایک مسائل کا سامنا ہے جن میںسب سے سنگین مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ رات کو دیر سے گھر پہنچتے ہیں‘ اُن کی بیویاں اِتنی سختی سے باز پرس کرتی ہیں کہ اُن کا سارا نشہ ہرن ہو جاتا ہے۔بیویوں کی ناقص عقل میں آج تک یہ موٹی سی بات نہیں آ سکی کہ د ِن بھر فیکٹری میںمشکل اَور اکتا دینے والا کام کرنے کے بعد شوہروں کا جی چاہتا ہے کہ سکون کے چند لمحے کسی شراب خانے میں گزار آئیں۔شراب خانے میں داخل ہوتے وقت اُن کا اِرادہ یہی ہوتا ہے کہ وہاں وہ ڈیڑھ ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں ٹھہریں گے۔ لیکن دو چار جام چڑھانے کے بعد اُنھیں یوں لگتا ہے کہ وقت تھم گیا ہے؛ یعنی اگر شام کے چھے بجے ہیں تو آدھی رات تک شام کے چھے ہی بجے رہیں گے یا زیادہ سے زیادہ سوا چھے ہو جائیں گے۔ چنانچہ اپنی دانست میں وہ سوا چھے بجے کے قریب اِس احسا س ذِمہّ داری کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ اِنسان کو سر ِ شام ہی بیوی بچوں کے پاس پہنچ جانا چاہیے ؛ لیکن گھر پہنچ کربیوی کی زبانی پتا چلتا ہے کہ سوا چھ نہیں بلکہ سوا گیارہ بج چکے ہیں۔ خاوند کو پریشان کن اِطلاع دینے کے بعد بیوی کی زہر میں بجھی ہوئی زبان بے طرح چلنے لگتی ہے اور بے چارے خاوند کے ہوش ٹھکانے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مکمل طور پر ہوش میں آنے کے بعد خاوند جھوٹ بول کر بیوی سے جان بچانا چاہتا ہے لیکن وہ جھوٹ اِس قدر غیر منطقی اور احمقانہ ہوتا ہے کہ بیوی مطمئن ہونے کے بجائے مزید بپھر جاتی ہے۔ وہ پریشان ہو کر ایک اور جھوٹ بولتا ہے جو پہلے جھوٹ کی واضح تردید کرتا نظر آتا ہے۔ اِس صورتِ حال میں خاوند کی حالت قا بل رحم ہوجاتی ہے اور وہ گھبرا کر بیوی کی پٹائی شروع کر دیتا ہے ۔ جوں جوں بیوی پٹتی ہے اُس کی زبان میں تیزی آتی جاتی ہے۔اس روز روز کی لڑائی سے تنگ آ کر بعض اوقات میاں بیوی علیٰحدگی اِختیار کر لیتے ہیں ۔اس افسوسناک انجام سے بچنے کے لیے مسٹر دیرک کیپلی نے دیر سے گھر پہنچنے والے شوہروں کی خاطر ایک کمپیوٹر اِیجاد کیا ہے جس میں دروغ گوئی کی تمام ممکنہ تیکنیکیں بھر دی گئی ہیں۔ دیر مت کریں۔ فورا! یہ کمپیوٹر خرید کر اپنی زندگی کو سہل بنا لیں۔ ٭٭٭٭ معزز قارئین‘ آپ جانتے ہی ہیں کہ یورپ اور امریکہ کے لوگ ز ِندگی کے اہم مسائل پر ریسرچ کرتے رہتے ہیں اور اُنھیں اِس سلسلے میں حکومت کے علاوہ مختلف اداروں سے بھی گرانٹ ملتی ہے۔ دو سال پہلے کی بات ہے کہ ریاستہائے متحدہ اَمریکہ (USA)کی حکومت نے ایک ممتاز محقق ڈاکٹر پال ٹومی کو دو لاکھ ڈالر کی گرانٹ دی تھی تا کہ وہ اِس مسئلے پر ریسرچ کر سکیں کہ عورتیں چوہوں سے اِس قدر کیوں ڈرتی ہیں جب کہ ہر مرد عورتوں سے ڈرتا ہے۔ حکومت نے ڈاکٹر صاحب سے خاص طور پر کہا تھا کہ وہ چوہوں کی اُن خصوصیات کو ضرور دریافت کریں جن کی وجہ سے عورتیں اُن سے اِس قدر خائف رہتی ہیں تاکہ ویسی ہی خصوصیات مردوں میں بھی پیدا کی جا سکیں! ڈاکٹر پال نے اللہ کا نام لے کرکام شروع کر دیا۔ دوسال کی محنت کے بعد وہ بالآخر دو لاکھ ڈالر کی خطیر رقم کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہو گئے۔ اگر اُن کی جگہ ہمارا کوئی ایم این اے یا ایم پی اے ہوتا تو اِس گرانٹ کو دو ہفتوں میں برابر کر سکتا تھا؛ لیکن یو ایس اے میں جمہوریت ذرا مختلف قسم کی ہے۔ بہر کیف دو سال کی ریسرچ کے بعد ڈاکٹر پال نے چند حتمی نتائج اَخذ کیے اَور ایک پریس کانفرنس بلا کر‘ اخباری نمائندوںسے یوں خطاب کیا: ’’حضرات! ہم نے اپنی ریسرچ کے دوران سینکڑوں عورتوں اور چوہوںپر تجربات کیے۔ ہمارا طر ِیق کار یہ تھا کہ دو چار عورتوں کو بٹھا کر اُن سے باتیں شروع کر دیتے اور پھر اچانک اُنھیں بتائے بغیر اُن کے سامنے چوہے چھوڑ دیتے۔ چوہوں کو دیکھتے ہی عورتیں نروس ہو جاتیں اور چیخ پکار کرنے لگتیںاور بعض تو ہمیں برا بھلا کہنا شروع کر دیتیں۔ اِس دوران ہم معزز خواتین کا رد ّ ِ عمل دیکھتے اور ان کے دِل کی دھڑکن اور نبض کی رفتار نوٹ کرتے اَور جو خواتین مزاحمت نہ کرتیں اُن کا بلڈ پریشر چیک کرتے۔ اِس کے علاوہ ناراض ہو جانے والی خواتین سے ہم ہاتھ باندھ کر معافی مانگتے تو وہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو جاتیں اور چیخ پکار کرنے لگتیں۔ بعض تو ہمیں برا بھلا کہنا شروع کر دیتیں۔ اِس دوران میں ہم معزز خواتین کاردِ عمل دیکھتے‘ اَور اُن کے د ِل کی دھڑکن اَور نبض کی رفتار نوٹ کرتے۔ جو خواتین مزاحمت نہ کرتیں‘ اُن کا بلڈ پریشر چیک کرتے۔ اِس دوران ہم پر ایک نہایت حیرت انگیز اِنکشاف ہوا۔ ہمارے ایک اسسٹنٹ نے دیکھا کہ جونہی عورتوں اور چوہوں کی ملاقات کروائی جاتی‘ عورتوں کا رنگ فق ہو جاتا اَور چوہوں کے ہوش و حواس اُڑ جاتے۔ بیشتر چوہے بھاگ جاتے اور چند ایک کو غشی کے دورے پڑ جاتے۔ ایک بار تو کمال ہی ہو گیا۔ ہم نے عورتوں کے سامنے بارہ ُچوہے چھوڑے۔ عورتیں چیخنے لگیں‘ چوہے بھاگنے لگے ‘ اَور اُن میں سے چار چوہے وہیں تڑپنے لگے۔ ہم نے اُٹھا کر اُن کا ّطبی معائنہ کیا تو پتا چلا کہ اُنھیں د ِل کا دورہ پڑ گیا ہے۔ چنانچہ فوراً اُنھیں طبی اِمداد دی مگر افسوس کہ وہ اِس سے پیشتر ہی وفات پا گئے! ریسرچ کے دوران میں ایک اور بات کا بھی پتا چلا جو عورتیں چوہوں کو دیکھ کر چیخنا چلانا اور رونا پیٹنا یا گالیاں دینا شروع کر دیتیں،چوہے اُن سے بہت کم خوف کھاتے لیکن جو عورتیں چوہوں کو دیکھ کر پر سکون انداز میں اُنھیں دیکھنے لگتیںچوہے اُن سے شدید خائف ہو جاتے۔ اب یہ تو ثابت ہو گیا ہے کہ عورتیںچوہوں سے اور چوہے عورتوںسے ڈرتے ہیں لیکن یہ پتا نہیں چل سکا کہ چوہے صرف پر سکون عورتوں سے کیوں ڈرتے ہیں اَور دُوسری عورتوں سے کیوں نہیں ڈرتے۔ اِس مسئلے پر ریسرچ کے لیے ہم نے حکومت سے مزید گرانٹ کی درخواست کی ہے۔ اِس کانفرنس میں شرکت کرنے پر ہم آپ کے بے َحد ممنون ہیں!! ٭٭٭٭٭