وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ ’’کارکردگی‘‘ دکھانے کے لئے 5سال کی مدت کافی نہیں۔ ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 5سالہ مدت کی وجہ سے طویل المعیاد منصوبہ بندی مکمل نہیں ہوتی۔ جب ہم چین گئے تو وہاں دس سالہ اور بیس سالہ مدت کی باتیں ہو رہی تھیں۔ 5سال کی مدت دنیا بھر میں ہے اور دنیا بھر کی حکومتیں حتیٰ کہ امریکہ‘ برطانیہ اور بنگلہ دیش نے بھی ترقی کی جملہ منزلیں اسی پانچ سالہ مدت میں حاصل کیں۔ وزیر اعظم کے ذہن میں کہیں ایسی آئینی ترمیم کی تمنا تو نہیں جس کی رو سے وہ اپنی مدت میں پانچ سال کی توسیع کرا سکیں؟ایسا ہے تو زرداری‘ نواز اور شہباز صاحبان سے رابطہ کر لیں۔ توسیع کی ہر درخواست وہ سر کے بل چل کر پوری کرنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ٭٭٭٭ ویسے یاد آیا‘ حکومت میں آنے سے پہلے انہوں نے پے درپے کئی چینلز کو انٹرویو دیے تھے۔ انہوں نے بے شمار منصوبوں (یا وعدوں) کا ذکر کرتے ہوئے بارہا اور مزید بارہا یہ اعلان کیا تھا کہ وہ یہ سارے کام پہلے سو دن میں کریں گے۔ ایک چینل پر البتہ انہوں نے اس مدت میں دس دن کی کمی کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ وہ یہ سارے کام نوے دن میں کریں گے۔ اینکر حضرات حیرت سے پوچھتے تھے کیا واقعی سو دن میں یہ سب کام کر لیں گے تو وہ بڑے اعتماد سے جواب دیتے تھے کہ بالکل‘ جو حکومت سو دن میں یہ سب کچھ نہیں کر سکتی وہ باقی مدت میں کچھ نہیں کر سکتی۔ یہ سنہرا اصول کیا اب کالعدم سمجھا جائے۔ ٭٭٭٭ اور یاد آنے کو تو یہ بھی یاد آیا کہ نواز حکومت کو تو محض چار سال ملے۔ پانچواں سال تو جے آئی ٹی اور پانامہ کمشن وغیرہ کا تھا۔ ان چار برسوں میں انہوں نے اتنے بجلی گھر بنائے کہ دو عشروں سے چل رہا لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ختم کر دیا۔ موٹر ویز کا جال بنایا سو الگ‘ سڑکوں‘ پلوں‘ ماس ٹرانسپورٹ کے نظام بنائے سو الگ‘ ضلع وار ہسپتال بنائے وہ الگ اور جو دوسرے کام کئے وہ الگ ۔ خط غربت کی شرح میں کمی اور گروتھ ریٹ میں اضافے والی بات تو چلئے‘ فی الحال رہنے ہی دیں۔ خاں صاحب کی اس معصوم سی تمنا پر اب کیا کہیے؟ ناطقہ سر برگریباں ہے کہ خدارا کچھ بھی نہ کہیے۔ ٭٭٭٭ سڑکوں پلوں بجلی گھروں کی بات سے یاد آیا،چیئرمین نیب کا ایک بصیرت افروز خطاب بھی انہی دنوں میڈیا پر آیا ہے۔ سر سے پائوں تک بصیرت افروز۔ فرمایا ہے‘ بلکہ فرمایا کیا‘ پوچھا ہے کہ حکومت نے اتنے اربوں ڈالر قرضے لئے‘ کہاں خرچ کئے۔ کہیں کچھ خرچ ہوا نظر تو نہیں آیا۔ انہوں نے سوال تو پوچھ لیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ روئے سوال کس حکومت کی طرف ہے؟ ماضی کی حکومت تو ہو نہیں سکتی۔ وہ تو بدنام ہو کر رہ گئی کہ اتنی سڑکیں بنائیں کہ سارا ملک یہ سڑکو سڑک کر دیا۔ دوسرے منصوبوں کی فہرست بھی خاصی لمبی ہے۔ چیئرمین صاحب نے سر سے پائوں تک کئی بار پڑھی ہو گی۔ پھر کیا ان کا روئے سوال موجودہ حکومت کی طرف ہے؟ ظاہر ہے کہ بالکل نہیں۔ اس حکومت نے بھلے ہی قرضے لینے کے سارے ریکارڈ توڑ کر نئے بنا ڈالے اور پھر اپنے بنائے ریکارڈ بھی توڑ کر مزید نئے ریکارڈ بنا لئے لیکن اس نے خرچ بھی تو کئے۔ ٭٭٭٭ براڈشیٹ کے قضیے سے ایک بات یہ برآمد ہوئی کہ 2010ء میں نیب نے جو یہ دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف کے ناجائز اثاثوں کی ملکیت ایک ارب ڈالر ہے یعنی آج کے حساب سے ڈیڑھ کھرب روپے۔ لیکن بعدازاں نیب کے اسی پراسیکیوٹر جنرل نے لندن کی عدالت کو بتایا کہ یہ اعداد و شمار قیاس آرائیوں اور افواہوں یعنی مفروضے پر مبنی تھے۔(ن) لیگ والے برآمد ہونے والے اس انکشاف پر بہت بغلیں بجا رہے ہیں۔ نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے اس پر ایک پریس کانفرنس بھی کر ڈالی۔ عرض ہے کہ ’’مفروضہ‘‘ سے خوش نہ ہوں۔ یہ مفروضہ وہ بلا ہے کہ اس کا کاٹا پانی نہیں مانگتا۔ مفروضہ کسی پتھر کو ڈس لے تو وہ شیش ریت بن جائے۔ بحرحال‘ ایک وزیر اعظم کو’’ثبوت‘‘ کی بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا‘ وہ بھی عمر بھر کے لئے۔ ثبوت یہ تھا کہ اپنے بیٹے کی فرم سے جو تنخواہ اس نے وصول نہیں کی‘ وہ وصول کی جا سکتی تھی چنانچہ قابل وصول کو وصول نہ کرنے کی بنا پر عمر بھر کی نااہلی کا پروانہ تھما دیا گیا اور یہ بھی کوئی دور کی بات نہیں کہ ایک وزیر اعظم کو دو مقدمات میں ’’ثبوتوں‘‘ کی بنیاد پر ڈیڑھ درجن‘ برس قید کی سزا سنا دی گئی۔ نمبر ایک یہ تھا کہ اثاثے آمدن سے زیادہ لگتے ہیں اور نمبر دو یہ تھا کہ آمدنی اثاثوں سے کم لگتی ہے۔ ٭٭٭٭ کار بیکاری کے دوران ایک شغل پرانے بلکہ پھٹے پرانے اخبارات و رسائل کی ’’پھولا پھالی‘‘ کا ہے۔ آگرہ سے نکلنے والے مشہور جریدے ’’شاعر‘‘ کے شمارے پر نظر پڑی۔ یہ 1937ء کا ایک شمارہ تھا جس کی پیشانی پر یہ درج تھا ’’ہندوستان کے چار کروڑ شاعروں کا آرگن‘‘ اس دور میں پورے متحدہ ہندوستان کی آبادی لگ بھگ 25کروڑ تھی۔ شاعر کے مطابق لگ بھگ 15فیصد آبادی شاعر تھی۔ بچوں کو نکال لیں تو 30فیصد۔ خاصا مبالغہ ہے اگرچہ اس شعر کے مبالغے سے ذرا کم کہ ؎ اک دن فراق یار میں رویا میں اسقدر چوتھے فلک پہ پہنچا تھا پانی کم کمر خیر‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں 25فیصد آبادی مسلمانوں کی تھی اور مسمان گھرانوں کا ہر فرد کم و بیش شاعر تھا۔ شاعر مدیر مشہور سیماب اکبر آبادی کا حلقہ چھاپتا تھا جن کے شاگردوں میں سے ساغر نظامی نے بہت نام پایا۔ شاعر نام کا ایک اور مشہور رسالہ بمبئی(اب ممبئی) سے بھی نکلتا تھا اور خوب مقبول تھا۔ بہرحال‘ اب وہ دور کہاں۔ پھٹے پرانے رسالوں کی الماری میں گم ہو گیا۔