اقبال نے کتنی سادگی سے گہرائی کی آخری حد پر جا کر کہا تھا: ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں انہوں نے خدا سے دعا کی’’مرا نور بصیرت عام کر دے۔ میں سوچتا ہوں کہ اختصار و اعجاز پر محمول یہ فقرہ یا مصرع اگر پھیلایا جائے تو کائنات پر محیط ہو جائے۔ یہ نور بصیرت ہے کیا! وہی قرآن و سنت سے پھوٹنے والے روشنی جس نے اقبال کو بے چین و مضطرب کر رکھا تھا اور جس نے ان کے کلام میں بجلیاں بھر دیں تھیں اور اسے شعلہ نوا کر دیا تھا۔ کبھی میں نے اس بے چینی اور اضطراب میں مفسر قرآن ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کو دیکھا تھا۔ ان کی شعلہ نوائی اور معجز کلامی سر چڑھ کر بولتی تھی کہ ان کی تقریر و گفتگو میں اقبال بولتا تھا۔ کبھی لگتا کہ وہ حافظِ اقبال بھی ہیں وہ ویسے بھی حافظ قرآن تھے۔ جامع اشرفیہ سے فارغ التحصیل ہی نہیں ،مدینہ یونیورسٹی سے پڑھ کر آئے۔ ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی کی معیت میں انہوں نے ڈاکٹریٹ کی۔ڈاکٹر اسلم صدیقی عربی اور اسلامیات کے گولڈ میڈلسٹ تھے۔ بس ہوتا ہے کہ اللہ بعض لوگوں کو اپنے کام کے لئے چن لیتا ہے۔ اصل میں آج مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کی پہلی برسی ہے اور مجھے یہ اعزاز ہے کہ وہ میرے پیارے ماموں جان تھے۔ صرف اتنا ہی نہیں۔ میں نے ان کے پاس رہ کر تعلیم حاصل کی اور ان کے شب و روز دیکھے۔ ایک پروقار شخصیت‘ تہذیب و شائستگی کا نمونہ اور وضعداری اور پاسداری کا استعارا۔ وہ بیس سال سے زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف دی پنجاب کی جامع مسجد میں خطبہ دیتے رہے کہ وہ چیئرمین مساجد ڈیپارٹمنٹ بھی تھے۔ ان کے حلقہ اثر میں کیسے کیسے لوگ رہے۔ وہ مدینہ سے لاہور آئے تو معروف سکالر اور سابق پرنسپل اورنٹیل کالج ڈاکٹر مظہر معین نے انہیں اصرار کر کے یہیں روک لیا اور یوں طلبہ کے درمیان ایک مینارہ نور بن کر روشنی پھیلاتے رہے۔ دین کی ترویج اور طلبہ کی تعلیم و تربیت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ ابھی حال ہی میں ان کی تفسیر دروس القرآن کتاب سرائے سے تیسری مرتبہ شائع ہوئی ہے۔ اس تفسیر کی اضافی خوبی یہ ہے کہ اسے سلیس اور جامع انداز میں یوں لکھا گیا ہے کہ یہ قرآن کا درس دینے والوں کے لئے بہت ممدو معاون ہے۔ مجھے اس تفسیر کی رونمائی کا پرنور منظر کبھی نہیں بھولتا۔ قاضی حسین احمد نے اس کی صدارت کی تھی اور ہر مکتبہ فکر کے علما نے اس میں شرکت کی تھی۔ ان کی ریڈیائی تقریریں بھی ’’انداز بیاں اپنا‘‘ کے نام سے چھپی ہیں۔ علاوہ ازیں ’’شعور زندگی‘‘ اور اسماء الحسنیٰ‘ جیسی اعلیٰ علمی کتب بھی انہوں نے چھوڑی ہیں۔ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ وہ کوئی زاہد خشک نہیں تھے۔ بزلہ سنج اور مزے کی بات کرتے مگر دلیل کے ساتھ۔ وہ خود شاعر تھے حمدو نعت کہتے۔ ان کے کریڈٹ پر ’’حمدو نعت‘‘ کی کئی تاریخی محفل ہیں۔ میں ان محافل کا حصہ رہا کہ میرے ذمہ شاعروں سے رابطہ کرنا تھا۔ احسان بٹ صاحب بھی ساتھ ہوتے۔ احمد ندیم قاسمی صاحب ایک مرتبہ مجھے کہنے لگے شاہ صاحب ! کچھ بھی ہو جائے میں صدیقی صاحب کو انکار نہیں کر سکتا اور ہر مرتبہ حاضری دیتا ہوں۔ ان محافل میں شاید ہی کوئی بڑا شاعر ہو جس نے شرکت نہ کی ہو۔ ڈاکٹر اسلم صدیقی خود میزبانی کرتے۔ ان کے بڑے بھائی مفتی عبدالمجید بھی اس میں حصہ لیتے کہ وہ بھی شاعر تھے: سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں میں نے کئی بار جماعت اسلامی کے اہم ترین لوگوں کو ان کے ہاں دیکھا اور ملاقات کی۔ قاضی حسین احمد ‘ سید منور حسن شاہ صاحب‘ لیاقت بلوچ‘ فرید پراچہ‘ حافظ سلیمان بٹ اور کئی دوسرے لوگوں کو جامعہ اشرفیہ کے مہتمم سے بھی میں یہاں ملا۔ ان کے دفتر میں تو بے شمار لوگ ان کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھتے اور سوال و جواب ہوتے ان کی تقریر سننے کے لئے کیسے کیسے پڑھے لکھے لوگ آتے۔ ان کی وفات پر مجھے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا بتاتے تھے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو سننے یونیورسٹی کی جامع مسجد میں آئے۔ وہ خود بھی ادیبوں اور شاعروں کے قدر دان تھے مجھے اپنے بیٹے کی شادی کا منظر یاد آ رہا ہے کہ ان کے پاس آ کر ڈاکٹر خورشید رضوی ‘ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ‘ عطاء الحق قاسمی ‘ ارشاد احمد عارف اور امجد اسلام امجد بیٹھے باتیں کرتے رہے۔پروگرام کے بعد مجھے پوچھتے ہیں ڈاکٹر خورشید رضوی سے تو ملاقات کروائو۔ میں نے ہنس کر کہا کہ وہ تو آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ کے ہمکلام تھے۔ وہ تعجب کرتے ہوئے مسکراتے رہے۔ اس طرح ہمارے گھر میں بڑے ماموں کی موجودگی میں اکثر ابوالکلام آزادی کی باتیں ہوتیں اور عطاء اللہ شاہ بخاری کی غالباً شورش کاشمیری سے تو جیسے بڑے ماموں کی جان پہچان تھی۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ہمارے گھر میں مذہبی اور ادبی ماحول تھا۔ ان کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ وہ پکے محب وطن تھے اور حالات پر کڑھتے رہتے تھے۔ وہ بعض معاملات پر اسلامی جمعیت کے طلباء کو ڈانٹ دیا کرتے تھے اور ہمیشہ مثبت اور تعمیری بات کرتے تھے۔ ان کی وفات پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے خطاب کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ان کے استاد اور محسن تھے۔ ان سے بہت کچھ سیکھا اور کئی اور لوگوں کو بھی ڈاکٹر صاحب کے لئے رطب السان دیکھا۔ وہ علم کا سرچشمہ تھے۔ ان کی بیگم جو میری پھوپھو بھی تھیں، حافظہ تھیں اور ان کے گھر سے کئی بچیوں نے حفظ بھی کیا۔ گویا ان کا گھرانا اسی نور بصیرت کے ساتھ وابستہ رہا کہ ان کے والد اگرچہ انگریزی استاد تھے مگر وہ مدرسہ ربانیہ کے پہلے مہتمم تھے اور مولانا فضل کریم کہلائے۔ ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ انہیں ہم سے بچھڑے ایک برس بیت گیاان کا جنازہ یونیورسٹی میں بھی الگ سے پڑھایا گیا اور کیسے کیسے جید علماء پروفیسرز نے اس میں شرکت کی اور انہیں یونیورسٹی کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کے کریڈٹ پر ایک آڈیو ویڈیو بھی ہے جو اٹھارہ کیسٹس پر مشتمل ہے ان کے بچے خاص طور پر مبشر اقبال صدیقی اور طیب اقبال صدیقی خود بھی نیک سیرت ہیں۔ مشرف اقبال صدیقی اور مظفر اقبال صدیقی بھی ان کے ہونہار فرزند ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے کام کو آگے بڑھانا چاہیے۔ڈاکٹر صاحب بہت دلیرآدمی تھے۔ آخر میں اقبال کے اس عاشق صادق کے لئے اقبال ہی کا ایک شعر: آسماں تیری لحد پر شبنم افشائی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے