حالات وشخصیت

پروفیسرڈاکٹر محمد قاسم سعیدی 

’’قرآن مجید‘‘ اُمت محمدیہ() کا دستورِ حیات ہے۔اہل زمین کے لئے اللہ کی طرف سے شریعت ِمطہرہ کا سر چشمہ اور ہدایت کا خزینہ ہے۔ قرآن مجید نورِ ربانی ،آسمانی ہدایت اور ہمیشہ رہنے والی شریعت ہے۔اِنسان اپنے دنیوی اور دینی ہردوقسم کے معاملات میں قرآن مجید کا محتاج ہے۔یہ پاک کلام اِنسان کی پوری زندگی عقائد،عبادات، اخلاق، حکومت وسیاست،امن و جنگ، اقتصادی، معاشی، معاشرتی اور ملکی وبین الاقوامی جیسے تمام اُمور ومعاملات کو شامل ہے۔اگر اِنسان اِس پر عمل کرے تو اِنسان دین و دنیا دونوں میں حقیقی کامیابی حاصل کرسکتاہے۔ قرآن مجید پر عمل یقینا ًاس کو پڑھنے اور سمجھنے پر منحصر ہے اور اس کو سمجھنے کے لئے اس کا ترجمہ سیکھنا ہمارے لئے از حد ضروری ہے اور بعض مقامات پر عربی کے مشکل ترین الفاظ کو سمجھنے کے لئے تفسیر قرآن کی ضرورت پڑتی ہے:

تفسیر کا لغوی معنیٰ ہے’’ وضاحت کرنا کھول کھول کر بیان کرنا،‘‘اور اصطلاحی معنیٰ’’ ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید جو اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی اُس کی فہم،قرآن مجید کے معانی،قرآن مجید کے احکام(اوامر و نواہی) اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی معرفت حاصل ہو‘‘( البرہان :زرکشی)قرآن مجید کی تفسیر خود قرآن سے ہوتی ہے یا سنت ِ نبویہ سے یا اقوال صحابہ سے۔قرآن کریم کے سب سے پہلے شارح اور سب سے بڑے مفسر خود حضور اکرم ﷺ ہیں۔

رسول اللہ ﷺ سے تفسیر کا علم صحابہ کرام علیہم الرضوان نے سیکھ کر تابعین کو ودیعت کیا۔حضرات تابعین کرام نے اس فن کو اُوج کمال تک پہنچایا۔تابعین میں سے چند مشہور مفسرین عظام یہ ہیں:عطا بن ابی رباح،عکرمہ مولیٰ ابن عباس،طاؤس بن کیسان الیمانی، سعید بن جبیر، محمد بن کعب القرظی،ابوالعالیہ الریاخی،زید بن اسلم، امام حسن بصری،حضرت قتادہ رضی اللہ عنہم اجمعین۔یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے اور قیامت تک خدمت ِقرآن کریم بصورت تفسیر جاری رہے گی۔انہی اعلیٰ پائے کے اشخاص میں ایک بہترین اور جیّد نام امام ابوبکراحمد بن علی رازی المعروف الجصاص بھی ہیں جن کی تفسیر کا نام’’ احکام القرآن‘‘ ہے جو کہ تفسیر جصاص کے نام سے زبان زد عام ہے۔تفسیر جصاص کی خصوصیات کا تذکرہ کرنے سے پہلے مفسر کے حالات کے قارئین کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں۔

نام ونسب

صاحب تفسیر کا نام احمد بن علی،کنیت ابوبکر اور لقب فخرالدین ہے۔سلسلہ نسب یوں بیان کیا جاتاہے۔آپ فارس کے شہر ’رئے‘ 305ھ میں پیداہوئے۔بچپن کے حالات کے بارے میں مؤرخین کا قلم خاموش ہے صرف اتنا تذکرہ ملتا ہے کہ آپ نے زندگی کے ابتدائی 15برس رئے میں گزارے اور پھر بغداد شریف منتقل ہوئےجو کہ اس وقت خلافت عباسیہ کا دارالخلافہ اور علم وتہذیب کا ایک بیش بہا مرکز تھا۔

ابتدائی تعلیم واساتذہ کرام :325ھ میں بیس سال کی عمر میں آپ بغداد پہنچے اور اپنے وقت کے علمی میدان کے شہسوار امام ابوالحسن کرخی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُن کی شاگردی اختیارکی اور پھر اپنی قابلیت کی بنا پر اُن کے خاص اور مقبول شاگردوں میں شمار ہونے لگے۔کچھ عرصہ کے لیے بغدادمیں پڑنے والے فتنوں کی وجہ سے اس شہر کو چھوڑ کر شہر ’اہوار‘میں منتقل ہوئے لیکن جب بغداد کے حالات بہتر ہوئے تو آپ واپس بغداد آگئے اور امام ابوالحسن کرخی  کے دروس و حلقات میں دوبارہ شامل ہوئے۔پھر اپنے استاد ِ گرامی کے حکم پر بغداد سے آپ ایک ایسے علم و حکمت سے معروف شہر’نیشاپور‘منتقل ہوئے اس شہر کو ’معدن الفضلا،منبع العلما اور المدینۃ العظیمہ ‘جیسے القاب سے یادکیاجاتاتھا اور یہ وہ شہر ہے جہاں امام الحدیث امام مسلم بن حجاج القشیری اور امام ابوعلی الحسین بن علی الحافظ نیشاپوری جیسی عظیم المرتبت ہستیاں قیام پذیرتھیں۔بغداد سے نیشاپور کے سفر میں آپ کے ہمراہ امام حافظ،شیخ المحدثین ابوعبداللہ حاکم نیشاپوری بھی شامل تھے۔نیشاپور پہنچ کرآپ نے امام ابوسہل الزجاجی،امام ابوعلی الحسین الحافظ اور امام ابوالعباس الاصم نیشاپوری جیسے جلیل القدر علما سے اپنی علمی پیاس کو بجھایا۔چوتھی صدی ہجری میں ’اصبہان‘بھی علمی مرکز کی حیثیت سے دنیابھر میں مشہور تھا آپ اس سہر میں بھی علمی خیرات لینے کے لیےپہنچے اوریہاں محدث کبیر امام طبرانی،امام عبداللہ بن جعفر الاصبہانی اور امام ابوالحق ابراہیم بن علی شیرازی سے اکتساب فیض کیا۔کتب اسما ءالرجال میں امام ابوبکر جصاص کے اٹھائیس جید اساتذہ کرام کے نام ذکر کئے ہیں جن میں سے چند مشہور کے نام ہم نے یہاں ذکر کئے۔الجصاص فقہ حنفی کے وکیل تھے ۔آپ نے علما ، محدثین اور فقہاکے مابین منصفی کے فرائض انجام دیئے اس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ متعصب یا شدت پسند نہ تھے(تاریخ بغدادی :4/316)

سرکاری مناصب سے بیزاری: 

امام ابوبکر جصاص فقہ کے بلند پایہ عالم تھے۔ خطیب بغدادی کا بیان ہے کہ آپ کو دو بار قاضی القضاۃ کا عہدہ پیش کیا گیا لیکن آپ نے قبول نہ کیا۔امام السمیری نے ابوبکر الابہری کا قول نقل کیا ہے کہ بغداد کے خلیفہ مطیع اللہ کا سفیر ابوالحسن میرے پاس آیا اور مجھے قاضی بننے کی درخواست کی میں نے انکار کیا اور ساتھ ہی امام ابوبکر الجصاص کا نام تجویز کردیا،اس دوران جصاص سے ملا اور اس عہدہ کو قبول کرنے سے منع کردیا۔کچھ دنوں بعد ابوالحسن میرے پاس دوبارہ آئے اور مجھے اپنے ساتھ جصاص کے پاس لے گئے ،مگر امام ابوبکر الجصاص نےمجھے دیکھتے ہی کہا کہ آپ نے مجھے خود ہی تو نصیحت کی تھی کہ میں قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہ کروں اور بطور سفارش خود تشریف لے آئے ہیں۔ابوبکر الابہری کہتے ہیں کہ ابوالحسن کو یہ بات بری لگی اور مجھے کہا کہ آپ ایسے آدمی کے بارے میں کیوں کہتے ہیں جسے آپ خود عہدہ قبول کرنے سے منع کرتے ہیں۔ امام ابوبکر الابہری سے اس بابت دریافت کیا گیا تو آپ نے کہاکہ:’’ میں نےامام مالک بن انس  کا طریقہ اختیار کیا کہ امام مالک بن انس نے مدینہ کے لوگوں کو کہا کہ نافع کو امام بنالیں اور ساتھ ہی نافع  کو امام بننے سے روک دیا ۔جب امام مالک سے اس بابت پوچھا گیا تو آپ نے کہا کہ امام نافع نیکی کے بہت بلند درجے پر فائز ہیں اگر امام نافع نے امامت قبول کر لی تو لوگ حسد کی وجہ سے ان کے دشمن بن جائیں گے‘‘ ابوبکر الابہری کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوبکر الجصاص کو ان کی نیکی کی وجہ سے پسند کیا اور منع اس لئے کیا کہ لوگ آپ کی نیکی کی وجہ سے حسد میں مبتلا ہوکر آپ سے دشمنی کرنے لگیں گے اور آپ کو طعن تشنیع کریں گے۔(کشف الظنون:115)اِس واقعہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کو سرکاری مناصب قبول کرنے سے کس قدر بیزار تھے۔

ارباب علم ودانش کی نگاہ مقام و مرتبہ

یقیناً کسی بھی عالم کا مقام و مرتبہ اورعلمی شان و شوکت کا اندازہ اس کے علمی کارناموں۔شاگردوں،تصانیف ،اور اپنے ہم عصر علما کے اقوال سے لگایا جاسکتا ہے۔یہ ذرائع کسی بھی عالم کے حقیقی سچے گواہ ہوتے ہیں۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ علما کی نظر میں امام ابوبکر الجصاص کی کیا شان ہے:

۱۔امام ابوبکر الابہری فرماتے ہیں کہ ’’قضا اور فقہی معاملات میں ان سے بڑا عالم میری نظر سے نہیں گذرا‘‘(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ: 168)

۲۔خطیب بغدادی فرماتے ہیں کہ ’’امام ابوبکر جصاص فقیہ ہیں،اصحاب رائے کے امام ہیں،آپ نے امام ابوالحسن کرخی سے اکتساب فیض کیا اور ان کے حقیقی وارث وجانشین بنے ،علم فقہ کے رئیس وامام تھے اور یہ امامت وریاست آپ پر ختم ہوجاتی ہے‘‘(تاریخ بغداد:4/314)

۳۔حضرت امام ابن الصلاح فرماتے ہیں کہ ’’ابوبکر رازی جصاص محقق علما کے امام ہیں‘‘(فتاویٰ ابن الصلاح33)

۴۔امام ‍ذہبی اپنی تصنیف ’تذکرۃ الحفاظ‘ میں آپ کا شمار حفاظ حدیث میں کیا اور فرماتے ہیں کہ ’’آپ امام ہیں،مفتی ہیں،مجتہد ہیں،محدث ہیں،علم کی خاطر بہت سفر کیا اور صاحب تصانیف کثیرہ ہیں‘‘(سیر اعلام النبلا:16/340)

۵۔حضرت امام قرشی کے نزدیک ’’امام ابوبکرجصاص رازی بہت بڑے عالم اور بڑی شان کے مالک ہیں‘‘(جواہر مضیہ)

اس سےبڑھ کر اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ وقت کے بڑے بڑے علما اور محققین  جیسے کہ ابن ندیم نے’ فہرست ‘میں ،امام قرشی نے ’جواہر مضیہ‘میں اوراحمد بن مصطفیٰ طاش کبری زادہ نے ’مفتاح السعادہ ‘میں امام ابوبکر الجصاص کے حالات کواپنی ان بیان کردہ کتب کی زینت بنایا ہے۔

اولادامجاد:آپ کی نجی اور عائلی زندگی کے بارے میں تاریخ کے اوراق خاموش ہیں۔آپ کی تصنیف ’شرح مختصر الطحاوی‘ پر تحقیق کرنے والے ایک محقق’عصمت اللہ‘نے لکھا ہے کہ امام ابوبکر جصاص کے بچپن کے حالت کے بارے میں کوئی بات نہیں ملتی اور نہ ہی آپ کے خاندان کے بارے میں کوئی معلومات مل سکی ہیں اور ساتھ ہی لکھتے ہیں کہ یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ آپ نے شادی کی بھی یا نہیں۔

وفات:علم و حکمت کے اس شہسوار کا انتقال 7 ذوالحج (دوسرے قول پر یکم ذوالحج)370 ھ بغدامیں ہوا۔آپ کی عمر 65 برس تھی۔آپ کے شاگرد علامہ محمد بن موسیٰ ابوبکر خوارزمی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو لحد میں بھی اتارا۔(تاریخ بغداد:4/315) 

تدریسی خدمات:340ھ میں آپ کوجب نیشاپور میں اپنے شیخ و مرشد اور استاد امام ابوالحسن کرخی  کے وصال کی خبر ملی تو آپ بغداد واپس تشریف لائے اور اپنے استاد ومربی کے حقیقی علمی و روحانی جانشین بنے ۔آپ نے یہاں تدریس،افتا اور تصنیف وتالیف کی گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ 

مہارتِ تامہ:ابوبکر جصاص ویسے تو علم کا بحر بیکراں تھے۔آپ تمام علوم وفنون میں ایک دلیل کی حیثیت رکھتے تھے اگر اہل علم کے پاس آپ کی کوئی تحقیق پہنچتی تو ارباب علم و دانش ضرور بالضرور آپ کی بات کو سندکی حیثیت دیتے ہوئے پسند فرماتے اور اگر کسی عالم کو آپ کی  کسی بات پر اعتراض ہوتاتو وہ آپ کو بلاجھجھک مطلع کرتا اور آپ اس کے اعتراض کا تسلی بخش جواب دیتے۔آپ الٰہیات،فقہ اور تفسیر قرآن کے حوالے سے زیادہ مشہورہیں۔ان علوم و فنون میں آپ کی رائے کو علما  بغیر کسی حیل و حجت کے تسلیم کرتے تھے۔

تصانیف:تصنیفات کے میدان میں اگر دیکھا جائے تو امام جصاص اس میدان میں بھی ہمیں نمایاں اور منفرد مقام کے حامل نظر آتے ہیں آپ نے اس میدان میں بھی قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں آپ کی تصنیفات میں ’’شرح جامع الکبیر ،شرح جامع الصغیر،شرح المناسک از امام محمد بن حسن شیبانی،شرح مختصر الفقہ الطحاوی،شرح آثار الطحاوی،شرح مختصر اختلاف الفقہا الطحاوی،شرح ادب القاضی خصاص، شرح مختصر الکرخی،شرح الاسما الحسنیٰ،جوابات المسائل،احکام القرآن اور الٖفصول فی الاصول‘‘جیسی شہرہ آفاق تصنیفات شامل ہیں 

تفسیراحکام القرآن :’’احکام القرآن‘‘ آپ کی وہ مشہور زمانہ تصنیف ہے جو فقہائے احناف میں بالخصوص اور فقہائے ثلاثہ(شافعیہ،مالکیہ اور حنابلہ)میں بالعموم ایک منفرد اور ممتاز مقام رکھتی ہے۔اس کتاب کا موضوع ’’قرآن کریم سے فقہی اور شرعی احکام و مسائل کا استنباط واستخراج ہے‘‘۔امام ابوبکر جصاص نے مسلسل آیات کی تفسیر کی بجائے صرف ان آیات کی فقہی تفصیلات بیان فرمائی ہیں جو فقہی احکام پر مشتمل ہیں اور یہ بات تفسیر جصاص المعروف احکام القرآن کے نام سے بھی واضح ہے یعنی قرآن مجید کے احکام کا بیان۔احکام القرآن کے نام سے اور بھی تفاسیر موجود ہیں جیسے کہ احکام القرآن ابن عربی،احکام القرآن قرطبی،احکام القرآن شافعی وغیرہ لیکن احکام القرآن کو ان تمام کتب میں ایک الگ مقام حاصل ہے اور اس کتاب کا شمار فقہی تفاسیر کے زمرے میں ہوتاہے۔

خصوصیات:ذیل میں اس تفسیر کی چند نمایاں خوبیاں بیان کی جاتی ہیں۔

۱۔ ابوبکر جصاص مسلکاًحنفی تھے اس لئے اس تفسیر میں ہمیں فقہی مسائل میں فقہ حنفی کے دلائل کثیر تعداد میں ملتے ہیں۔

۲۔فقہ حنفی اور فقہ شافعی میں باہم تقابل کے دوران مصنف  نے فقہ حنفی کو ترجیح دی ہے۔

۳۔آپ کا اس تفسیر میں اسلوب یہ ہے کہ فہرست میں سورۃ کا نام ذکر کرنے کے بعد اس سورۃ میں جو فقہی احکام پائے جاتے ہیں ان کی ابواب بندی کرتے ہیں۔ فہرست ابواب وفصول ذکر کرتےے ہیں۔

۴۔فہرست کے باب میں یا فصل میں کثرت سے ان الفاظ ’’مطلب یا ذکر‘‘کا استعمال کیا گیا ہے

۵۔آپ اپنی تفسیر میں آیات کی تشریح کے لئے قرآنی آیات،احادیث نبویہ ﷺ،آثار صحابہ کرام اور تابعین کرام کے ساتھ ساتھ قدیم علما کے اقوال بھی ذکرکرتے ہیں۔

۶۔حضرت امام اعظم ابوحنیفہ،امام ابویوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہم کے اقوال خاص طور پر اپنی اس تفسیر میں بیان فرمائے ہیں۔

۷۔آیات کی تشریح میں آیات قرآنیہ،احادیث نبویہ اور اقوال ائمہ کرام کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل بھی ذکر کرتے ہیں تاکہ عقل کے ساتھ بھی استفادہ ہوسکے۔

۸۔احکام القرآن میں قرآن مجید کی جن آیات سے براہ راست فقہی مسائل کا استنباط ہوتاہے ان پر بڑی جانفشانی کے ساتھ مفسر نے بحث کی ہے۔ان آیات کو احکامی آیات یا آیات احکام کہا جاتاہے۔

۹۔عقلی دلائل کے ذریعے دھریت کی طرف لوگوں کے اعتراض کا تسلی بخش جواب ملتاہے۔

۱۰۔سائنس اور فلسفے کے اسلام پر اعتراضات کے جوابات عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں دیئے گئے ہیں۔

۱۱۔یہ تفسیر امام جصاص نے چوتھی صدی ہجری کے فقہی مباحث۔قانونی مشکلات اورمسائل کے پس منظر میں تحریر کی ۔ اگرچہ ان میں سے بعض مباحث اب موجود نہیں لیکن ان مباحث میں کی جانے والی گفتگو اور پیش کردہ دلائل کی اہمیت اب بھی اپنی جگہ مسلّم ہے۔

۱۲۔جس طرح ہر دور کے علما ان مسائل کے حل کی طرف توجہ دیتے ہیں جو ان کے زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں یا ملحدین اور اہل باطل کی طرف سے شکوک وشبہات سامنے آتے ہیں ،بلکل اسی طرح امام ابوبکر جصاص نے بھی اپنے زمانے میں ملحدین اور اہل باطل کی طرف سے وارد ہونے والے اعتراضات کو اپنے دلائل کی روشنی میں رد کیا ہے۔

۱۳۔حنفی المسلک ہونے کے باوجود اختلافی مسائل میں بڑےعمدہ اور خوبصورت پیرائے میں مختلف اقوال وآراکا محاکمہ اور تقابل پیش کیا ہے۔

۱۴۔شیخ ابو الحسن کے نظریات کی ایک خاص جھلک امام ابوبکر الجصاص کے اقوال پر نظر آتی ہے۔آپ نے اپنے شیخ کے اقوال کئی مقامات پر ذکرکئے ہیں۔

۱۵۔صاحب تصنیف مسائل کے استنباط میں قیاس،عرف اور استحسان کا ذریعہ بھی اختیار کرتے ہیں۔

۱۶۔تفاسیر کی دیگر کتب میں اسرائیلی روایات کا مفسرین نے التزام کیا ہے لیکن احکام القرآن للجصاص میں صاحب تفسیرنے اسرائیلی اور موضوع روایات کو شامل نہیں کیا۔

الغرض امام ابوبکر جصاص کو اپنے دور میں تمام علوم وفنون کی جامع شخصیت تھے ،اللہ تعالیٰ ان کے فیضان علم کو عام فرمائے ۔