آنکھ رورہی ہے،دل غمناک ہے ،لیکن زبان وہی کہے گی، جو میرے رب کی رضا ہے ،اے ابراہیم! ہم تیرے فراق میں بہت غم زدہ ہیں ۔ہم بھی کہیں گے اے استاد گرامی! آپ کی جدائی نے بہت دکھی کیا ۔آہ !ایک اور علم و عمل کا پہاڑ چل دیا ۔ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔خالق ارض و سما کے اس ضابطے سے کوئی مستثنٰی نہیں۔ کاررواں چل رہا ہے‘ محفلیں اجڑ رہی ہے۔ آس پاس بیٹھے‘ پہلو بہ پہلو لوگ گم ہو رہے ہیں۔ شہاب ثاقب ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے ہیں مگر آسمان کا دامن یونہی ستاروں سے بھرا رہے گا۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی ؒ ،بہترین منتظم ‘ متجسس، یکسو ‘ دیانتدار‘ ضابطہ پسند‘ دلیل اور منطق سے بات کرنے والے۔فیاض چشم‘ متواضع اور بے حد مروت کے حامل تھے۔خوش انتظامی نیک نامی اور ہر دل عزیزی سے سب کو مطمئن رکھنے کا فن موروثی تھا۔یقینی طور پر مقبولیت کے اس قدر اسباب کم لوگوں کو نصیب ہوتے ہیں۔ آپؒ مصلحت کے پُرفریب موسموں میں بھی حق و صداقت کا شکار بن کر جیتے رہے۔لیکن جب کبھی اسلام کے خلاف باطل نے سر اٹھایا تو آپ ؒ میدان عمل میں آ کھڑے ہوتے،زمینی حقائق سے ہم آغوش، سناٹوں کوچیرنے والی ایسی گرج دار آواز ،جو اونچی شہ نشینوں والے ایوانوں پر بھی کپکپی طاری کر دیتی تھی،وہ اچھوتی تشبیہات اور انوکھے استعارے تراشنے کی بجائے سنجیدہ اور سادہ باتیں کرتے تھے، اب ان کا اسلوبِ تحریراور اندازِ گفتگو کہاں سے لایا جائے۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے ایک سپاہ تشکیل دی تھی، مفتی رفیع عثمانیؒ اس سپاہ کے پرچم برداروں میں سے ایک تھے۔دھیمے سروں میں ،دل میں اتر جانے والی بات کہنے کا سلیقہ‘ اپنے موقف کے حق میں ٹھوس دلائل‘ سیاسی حرکیات پر عبور ‘ اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں‘ انتھک محنت وریاضت‘مقصد کی لگن‘ کھری‘ دو ٹوک اور ستائش و صلے سے بے نیاز ہو کر حق گوئی کا ڈھنگ آپ کی شخصیت کا جزو لاینفک تھا۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانیؒ تدریس کے شہنشاہ ،تفہیم کے بادشاہ ،چنیدہ الفاظ، تراشیدہ مفاہیم،فہمیدہ لب ولہجے ،اعلی ذوق ،ارفع معیار ،اونچے منتظم ہونے کے ساتھ ہمارے عہد کا بانکپن تھے، وہ صاحبِ علم و عرفان بھی تھے اور دینی علوم پر دسترس رکھنے والے عالم دین بھی۔ان کی طبیعت میں مومنانہ گداز بھی تھا اور حق کی سربلندی کے لئے مجاہدانہ جنون بھی۔ وہ روحانیت کی راہوں کے فقیر منش مسافر بھی تھے اور علم و تحقیق کی کٹھن منزلوں کے متلاشی بھی۔ ان کی گفتگو ہیجان‘ غصے،اشتعال اور غضب سے خالی تھی۔یہی وجہ کہ آپ ؒفرقہ واریت کی فتنہ گری سے کوسوں دور تھے۔نفرت اس پاکباز شخص کے جذب و احساس میں کبھی گھر نہ کر سکی۔وہ اتحاد بین المسلمین کے ایسے داعی تھے،جس نے زبان سے کبھی زہر فشانی کی نہ ہی کسی کا دل دکھایا۔قرآن و حدیث کی تدریس اور بین المذاہب ہم آہنگی ان کے لہو کی ایک ایک بوند میں رچی بسی تھی۔بے چارگی‘ بے حمیتی‘ بے وقعتی اور بے بضاعتی کا سبب یہ ہے کہ ہمارے علمی مراکز ایسے معتدل علماء کرام سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔مولانا یوسف لدھیانویؒ‘ مولنا رشید احمدلدھیانویؒ،مفتی نظام الدین شامزئیؒ،مفتی محمد نعیم ؒاور مفتی محمد جمیل خانؒ جیسے کیسے کیسے علما اٹھتے جا رہے ہیں۔ آپؒ کاہر لمحہ حیات ،ایک مقصد، ایک مشن اور ایک عشق کی بھٹی میں سلگتا رہا۔آپ جیسی متحرک’ فعال سرگرم‘ اور جنوں شعار زندگی کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ مرقعِ نفاست ،نستعلیق بدن، کتابی چہرہ، پروقار چال ڈھال، ستواں ناک پر تمکنت سے ٹکائی ہوئی عینک، علمی رعب ودبدبہ ،شاہانہ مزاج، فقیرانہ رویہ، نازک طبع، اعلی معیار، مسند حدیث کی رونق۔آپ کی شخصیت تھی۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اپنے بڑے بھائی کو والد کی جگہ دیتے تھے، کیاقابلِ رشک علمی جوڑی تھی، کیا ہی عقیدت ومحبت کی مورتیاں تھیں ،کیا ہی یک جان دو قالب تھے، کیا ہی لازم ملزوم قسم کا بھائی چارہ تھا، کیا ہی مثالی جوڑ تھا۔آج دارالعلوم کا ذرہ ذرہ نوحہ کناں ہے،درودیوار دارالعلوم آج تصویر حزن وملال ہیں، دارالعلوم کی پرشکوہ عمارات غم کاگھروندہ ثابت ہو رہی ہے۔منصب افتاء آج حق فتویٰ ادا کرنے والے فقیہ کی رحلت پر ماتم کناں ہے،اہتمام وانصرام کا کوہ ہمالیہ آج روئی کے گالوں کی مانند اڑرہا ہے۔ کیونکہ آج کے بعد دارالعلوم کی فضاؤں میں وہ گرج دار آواز کا طنطنہ نہیں ہوگا۔ مفتی رفیع عثمانیؒ21 جولائی 1936ء کو متحدہ ہندوستان میں واقع دیوبند میں پیدا ہوئے،آپ تحریک پاکستان کے رہنما مفتی اعظم پاکستان دارالعلوم کراچی کے بانی مفتی شفیع عثمانی کے بڑے صاحبزادے تھے۔ آپ پاکستان کے موجودہ مفتی اعظم اور مشہور درسگاہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے رئیس ہونے کے علاوہ30 سے زائد کتابوں کے مصنف، مفسر قرآن، فقیہ تھے۔ مرحوم تحریک پاکستان کے کارکن اور قیام پاکستان کے بعد تعمیر پاکستان کی جدوجہد کے ایک دینی رہنما تھے۔ اس وقت پیدا ہوئے ،جب ان کے والد مفتی محمد شفیع دارالعلوم دیوبند میں استاذ تھے۔ مرحوم مولانا رفیع عثمانی نے ساری زندگی دارالعلوم کراچی کے احاطے میں اپنے والد کی مسند علم و ارشاد پر قرآن و سنت کی تعلیم دیتے ہوئے گزاری۔ مرحوم کے دادا مولانا محمد یاسین بھی دارالعلوم دیوبند کے استاد تھے، ان کا شمار پاکستان کے سرکردہ علماء میں ہوتا تھا، درس مسلم، دو قومی نظریہ، نوادرالفقہ، پراسرار بندے ان کی اہم کتابوں میں شامل ہیں۔ آپکے والد گرامی مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیعؒ فرماتے تھے: تنظیم کا نام ادب نہیں ہے بلکہ ادب نام راحت پہنچانے کاہے، اساتذہ کا ادب و احترام نہ کرنے کی وجہ سے علم میں خیروبرکت اٹھ جاتی ہے، عاد ۃ اللہ یہی ہے کہ استاد خوش و راضی نہ ہو تو علم نہیں آ سکتا۔ غلطیوں سے مبرا اور ہر کام میں توازن و اعتدال تو صرف انبیاء کا خاصا ہے۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی اُخروی منازل کو آسان فرمائے۔