میرے آقا روحی فداہ ﷺ!آج 14 اگست ہے ، آج کے دن بٹھنڈا سے لے کر راجپورہ تک مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا اور میں موجود تھا۔ میرے آقا روحی فداہ ﷺ!کیسے بتائوں اور کیا بتائوں کہ آج اس وقت کیا ہو رہا ہے ۔ وحشت ودرندگی کے ایسے مناظر تاریخ نے اس سے پہلے کم ہی دیکھے ہوں گے ۔ فاتحانہ قہقہموں کے ساتھ معصوم شیرخوار بچوں کو نیزوں پراچھالا گیا۔۔۔۔۔۔ جیسے خونخوار درندہ اپنے شکار کو اچھالتا ہے ۔۔۔۔۔۔ سے بے بس پا کر اس سے کیا کیا کھیل کرتا ہے ! پردہ دار خواتین جنہوں نے کبھی گھر کی دہلیز سے قدم باہر نہ رکھا تھا، کتنی بے چارگی کے عالم میں گھر سے بے گھر ہوئیں۔ راجپورہ سے امرتسر تک ہر ریلوے سٹیشن پہ شہید کی جانے والی عزت مآب بیٹیوں کے کٹے ہوئے لٹکتے ہوئے سر، انہی کے بالوں کے ذریعے درختوں پہ آویزاں کئے گئے اور ان کٹے ہوئے لٹکتے ہوئے ماتھوں پہ خون سے ’’جے ہند‘‘ کے الفاظ لکھے گئے ۔۔۔۔۔۔ یہ انسانی وحشت ودرندگی کی انتہا تھی۔ میرے آقا روحی فداہ ﷺ! کسی کی عزت محفوظ رہی نہ آبرو۔ انسانی عصمت، انسان نما درندوں کی ہوس کا شکار ہو گئی اور اس وقت غیرت مند قوم کی غیر ت مند بیٹیوں نے اپنی عصمت بچانے کیلئے جو کچھ کیا، اس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کسی نے اپنے آپ کو چھری مار کر ختم کر ڈالا اور کسی نے پتھر سے اپنے ہاتھوں اپنا سر کچل لیا۔ اور کچھ نہ ہو سکگا تو ساگ چیرنے والی درانتیوں سے اپنے گلے کاٹ ڈالے ۔ پناہ گاہ نہ ملی تو کنوئوں میں چھلانگیں لگا دیں اور نہروں میں ڈوب گئیں۔ چھتوں سے کود کر اپنی زندگی کا چراغ بجھا دیا لیکن دامن عصمت کو داغدار نہ ہونے دیا۔ باپ کی عزت اور بھائی کی غیرت نے خود کو مجبور پایا تو اپنی ہی بیٹیوں اور بہنوں کو اپنے ہی ہاتھوں ختم کر ڈالا اور غیرت کی موت کو بے غیرتی پر ترجیح دی۔ مقالات حکمت