اسلام آباد (خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے آئین کے تحت بلدیاتی اداروں کو اختیارات منتقل کرنے سے متعلق آئینی درخواستوں پر سماعت اکتوبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو نوٹس جاری کردیئے ہیں اور تمام فریقین کے وکلا کو تحریری دلائل جمع کرانے کا حکم دیا ۔دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریما رکس دیے کہ آئین کے آرٹیکل 140کے تحت بلدیاتی اداروں کو اختیاراتدینا ،نچلی سطح پر اختیارات منتقل کرنا لازمی ہے ،مقامی حکومتوں کے اختیارات وفاق یا صوبائی حکومتوں کا اپنے پاس رکھنا غیر آئینی ہے ۔جسٹس اعجا زالاحسن نے کہا کہ ہمیشہ محدود مقاصد کے لئے بلدیاتی قوانین بنائے جاتے ہیں۔ایم کیو ایم کے وکیل صلاح الدین نے موقف اپنایا کہ لوکل باڈیز کو اختیارات منتقل کرنے سے یک دم دودھ کی نہریں بہنا شروع نہیں ہو نگی ۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ عمرانہ ٹوانہ کیس میں بلدیاتی اختیارات کے حوالے سے آرٹیکل 140 کی تشریح کی گئی ہے ۔ چیف جسٹس نے کراچی میں بارشوں کے دوران میو نسپل کارپوریشن کی کارکرگی کے بارے سوالات اٹھائے اور کہا کہ شہر میں لوگ سڑکوں پر مر رہے تھے ،کاغذوں میں عملہ ہے لیکن موقع پر دکھائی نہیں دیتا، مطلب ہے گھوسٹ ملازمین ہیں اور اربوں روپے تنخواہوں کی مد میں کھائے جا رہے ہیں، یہ درخواست اختیارات کے حصول یا دکھاوے کے لیے دی گئی ہے ۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ سارا کھیل طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا ہے ،کراچی کو جو بھی نظام دیا گیا، اس کے کوئی اچھے نتائج نہیں نکلے ، اختیارات کی بات کرنی ہے تو ذمہ داری بھی لینا ہوگی ، احتساب بھی کرنا ہو گا۔ چیف جسٹس نے ایم کیو ایم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ مقامی حکومت آپکی تھی آپ نے اپنے دور میں کیا کیا ؟ لوگ ڈوب کر مر رہے تھے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سندھ کا بلدیاتی قانون تین میں ہے نہ 13 میں۔عدالت نے تحریک انصاف کی درخواست پر رجسٹرار اعتراضات کالعدم کرکے درخواست پر سندھ حکومت سے جواب طلب کرلیا ۔