کوئی کہیں کا مکین ہو، کسی بھی زمانے اور کسی بھی قوم کا فرزند،بلند عزمی اور اخلاقی عظمت کے ساتھ جرأت و شجاعت آدمؑ کے ہر فرزند کے لیے مشعل ہے۔ بدنصیب ہیں جو ادراک نہ کر سکیں۔ مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں نفیسہ شاہ کے بعد فواد چودھری کی رگِ حمیت پھڑکی ہے۔ ترک ڈرامے نشر کرنے پرانہیں اعتراض ہے۔ برسوں سے یہ ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں۔ تب کسی کو اختلاف نہ تھا۔ ارطغرل کی خیرہ کن کامیابی نے کرب میں مبتلا کر دیا۔ نفیسہ شاہ کہتی ہیں کہ ترویج مقامی ہیروز کی ہونی چاہئیے۔ فواد چودھری فرماتے ہیں کہ غیر ملکی ڈراموں سے مقامی پروڈکشن کو نقصان پہنچے گا۔ کون سی مقامی پروڈکشن؟ پی ٹی وی کے سینکڑوں پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز برسوں سے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ یہ ایک اجڑا ہوا چمن ہے، جس میں کبھی کوئی کونپل نہیں پھوٹتی، کبھی کوئی پھول نہیں کھلتا۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ دنیا بھر میں پی ٹی وی ڈراموں کی شہرت تھی۔ اشفاق احمد، منّو بھائی اور امجد اسلام امجد ایسے لکھنے والے،یاورحیات، ایوب خاور، شہنشاہ نواب اور شہزاد خلیل ایسے ڈائریکٹر۔ منّو بھائی کے ڈرامے ’’سونا، چاندی‘‘ کے دو مرکزی کردار امر ہو گئے اور اب بھی زندہ ہیں۔ امجد اسلام امجد نے ایک ایسی ڈرامہ سیریل بھی لکھی کہ نشر ہونے کا وقت آتا تو گلیاں سنسان ہو جاتیں۔ جیسا کہ سرکاری اداروں میں ہمیشہ سے ہوتاآیاہے، رفتہ رفتہ کچھ بھی باقی نہ رہا۔ اب کاٹھ کباڑ باقی ہے۔ پی آئی اے کی طرح پی ٹی وی بھی کارکن یونینز کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ ٹی وی نشریات کی تاریخ میں ایسا عجوبہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ہوگا کہ جتھوں کے دباؤ پر مالی، کلرک، ٹیکنیشنز اور فلمیں دھونے والے، ڈائریکٹر، پرڈیوسر، حتیٰ کہ جنرل مینیجر کے مناسب تک پہنچے۔ پنجابی محاورہ یہ ہے: اجڑی مسجدوں کی گلہریاں امام۔ تمام بڑے شہروں میں عظیم الشان دفاتر کے ساتھ، پی ٹی وی کا سالانہ بجٹ دس ارب روپے کو محیط ہے۔ سات ارب روپے تنخواہوں پہ اٹھتے ہیں۔ بجلی کے ہربل پر پینتیس روپے ماہوار۔ نئی تجویز یہ ہے کہ جرمانہ سو روپے کر دیا جائے۔ نشریات خبروں تک محدود ہو گئیں یا چند ٹاک شو، اکثر کا تقررسفارش پر۔ خاندانوں کے خاندان بھرے ہیں۔ صرف ایک پی ٹی وی سپورٹس ہے، جو کبھی تھوڑا سا منافع حاصل کرنے میں کامیاب رہتاہے، جب کرکٹ دکھانے کا پروانہ مل جائے۔ کپتان نے وعدہ کیا تھا کہ پی ٹی وی کو بی بی سی بنا دیا جائے گا۔ آزاد ماہرین اور آزادی۔کہا جا سکتاہے کہ پچاس لاکھ مکانوں اور ایک کروڑ نوکریوں کے لیے مالی وسائل درکار تھے جو مہیا نہ ہو سکے۔ مگر پی ٹی وی کی اصلاح میں کیا چیز مانع ہے؟ اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے۔ اس کے اندر موجود،قائم اور زورآور مافیاز۔ ویسی ہی مافیا، جیسی سٹیل مل اور پی آئی اے میں پائی جاتی ہیں۔ پی آئی اے میں تو پھر بھی ایک جرأت مندانہ قدم اٹھایا گیا۔ فضائیہ سے لائے گئے جناب ارشد ملک اور ساتھیوں سے اختلاف کیا جا سکتاہے مگر خسارہ کم کرنے کی سرتوڑ کوشش توکی۔ اگرچہ بنیادی مسئلہ اب بھی جوں کا توں ہے۔ چھ ہزارکی بجائے اٹھارہ ہزار ملازمین۔ زائد لوگوں سے جان کیوں نہیں چھڑائی جاتی۔ ہر سال اربوں روپے ضائع کرنے کی بجائے ایک ہی بار معقول رقم دے کر انہیں فارغ کیوں نہیں کر دیا جاتا۔ زندگی چیلنج قبول کرنے میں ہوتی ہے، دستِ سوال دراز کرنے میں نہیں۔ قائدِ اعظمؒ نے کہا تھا کہ سفارش وہ بدترین مرض ہے، ہمارا معاشرہ جس میں مبتلا ہے۔ مسلم برصغیر کا خوفناک عدمِ تحفظ اور خود ترسی۔ سرپرستی کے ایک پیچیدہ نظام میں جیتا ہوا معاشرہ۔ صدیوں کی ملوکیت اور جاگیر داری نے دلوں اور دماغوں کو پست کر ڈالا ہے۔ سرکاری ادارے ذہنی مریضوں کی آماجگاہ ہیں۔قومی ذہانت اور توانائی کا بڑا حصہ جہاں برباد ہوتاہے۔ ترک ڈرامے پر نفیسہ شاہ اور فواد چودھری کی پریشانی کا سبب مختلف ہے۔ قومیت کا محدود تصور جو ملک کو امت سے جدا کرتاہے۔یہ تین صدیوں پر پھیلی الحاد اور قوم پرستی کی تحریکوں کا اثر ہے۔اقبالؒ نے جن کے بارے میں کہا تھا: ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جوپیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے فواد تو شاید پورے پاکستان کی با ت کرسکیں۔ بے چاری نفیسہ شاہ کی دنیا دیہی سندھ تک محدود ہے۔ ان کے لیے تاریخ ذو الفقار علی بھٹو سے شروع ہو کر بلاول پر ختم ہو جاتی ہے۔ اللہ انہیں زندگی اور صحت دے، فرض کیجیے، بلاول اقتدار میں آجائیں تو اسی وفاداری اور یکسوئی کے ساتھ آئندہ نسل کی بھی وہ اطاعت فرمائیں گی۔ ترک ڈرامے کی ناقابلِ یقین مقبولیت نے پاکستانی لبرل کو بوکھلا دیا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں، جو اترسوں کیمونسٹ تھے، پرسوں سوشلسٹ، کل سیکولر اور آج لبرل۔کل سویت یونین کے فکری کارندے، آج امریکہ بہادر کے۔ انہی کے لیے لبرل فاشسٹ کی اصطلاح تراشی گئی اور انہی کو عمران خاں خونی لبرل کہتے ہیں۔ افغانستان پر سویت یونین حملہ آور ہو تو یہ اس کے حامی۔ امریکہ افغانیوں کا قتلِ عام کرے تو یہ اس کے ہم نوا۔ احساسِ کمتری کے مارے ہوئے بے چارے۔فرانزز فینن نے کہا تھا: غلام اپنے آقا کے ذہن سے سوچتا ہے۔ ہیرو کیا مقامی اور غیر مقامی ہوتا ہے؟ ابرہام لنکن ایک لہکتا ہوا اخلاقی استعارہ ہیں۔ اگر ان پر ڈھنگ کی فلم بنے تو کیا ساری دنیا انہماک اور شوق سے نہیں دیکھے گی۔ کیا ایشیا والے چرچل اور ڈیگال کے قائل نہیں۔ کیا شیکسپئر کے بارے میں اقبالؒ نے یہ نہیں کہا تھا حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا رازداں پھر نہ کرے گی کوئی ایسا پیدا اہلِ عظمت تمام بنی نوعِ انسان کو عزیز ہوتے ہیں۔ سات صدیاں بیت چکیں،ہر دس بیس برس کے بعد صلاح الدین ایوبی پر مغرب میں کوئی کتاب لکھی جاتی ہے، کوئی فلم بنتی ہے یا ڈرامہ سیریل۔ آکسفرڈ یونیورسٹی کا آغاز ہوا تو دنیا کے جن ممتاز مفکرین کا انتخاب ہوا، امام غزالیؒ ان میں شامل تھے۔ مدتوں پڑھائے جاتے رہے۔کتنی ہی مغربی زبانوں میں مولانا رومؒ کا ترجمہ ہوا اور ساری دنیا کے اہلِ دل انہیں عزیز رکھتے ہیں۔ خلیل جبران عالمِ عرب سے زیادہ مغرب میں مقبول ہیں۔دستوفسکی اور گورکی روس کے فرزند تھے مگر ادب کی دنیا میں ہر طالبِ علم کے ہیرو۔ کوئلو پائلو لاطینی امریکہ کے ہیں مگر ساری دنیا کے بھی۔ اقبالؒ سیالکوٹ کی خاک سے اٹھے مگر تمام عالمِ اسلام کی متاع ہیں۔ مغرب بھی ان سے مرعوب ہے۔اہلِ کشمیر ان کے گیت گاتے ہیں۔کیا اس لیے کہ ان کے ہم نسل تھے مگر انقلابِ ایران میں بھی وہ ایک اہم ترین کردار تھے۔ اتنے کہ کوئی دوسرا ایرانی شاعر نہیں۔ علی شریعتی انہی کی شاخ پہ کھلا پھول ہیں۔ کوئی کہیں کا مکین ہو، کسی بھی زمانے اور کسی بھی قوم کا فرزند،بلند عزمی اور اخلاقی عظمت کے ساتھ جرأت و شجاعت آدمؑ کے ہر فرزند کے لیے مشعل ہے۔ بدنصیب ہیں جو ادراک نہ کر سکیں۔ مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں