مقبوضہ کشمیر کے عوام طویل عرصے سے بھارتی جبر واستبداد کا سامنا کر رہے ہیں۔پچھلے ایک سال میں تو حد ہی ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک سال میں بھارتی حکومت اور فورسز نے کشمیری عوام پر جو ظلم ڈھائے ہیں، اگر عالمی ضمیر نام کی کوئی چیز موجود ہوتی تو اقوام عالم بھارت کے خلاف کھڑی ہوجاتیں۔ افسوس کہ شرمناک خاموشی اور افسوسناک سردمہری کے سوا کہیں کچھ نظر نہیں آرہا۔ چین کے علاوہ ترکی، ملائشیا جیسی اکا دکا استثنائی مثالیں ہی سامنے آئی ہیں، ان کے سواتمام مسلم ممالک اور مغربی دنیا مہربہ لب ہے۔اس ایک سال میں پاکستانی حکومت کشمیرایشو کو دنیا کے سامنے اٹھانے میں کس حد تک کامیاب ہوئی،سفارتی محاذ پر کیا کچھ کیا جا سکتا تھا ، جو نہیں کر سکے، اس حوالے سے مختلف آرا ہوسکتی ہیں۔ ایک سال گزر جانے کے بعد اپنی ریاستی اور حکومتی کارکردگی کا تجزیہ کرنا چاہیے ، غلطیوں کو دور اور مستبقل کے لئے بہتر حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ جارحانہ سفارت کاری کے خدوخال کیا ہوں، اس پر بات کی جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر وہ لیڈر، سیاسی جماعت ، دانشور یا تجزیہ نگار جو حکومتی پالیسی پر تنقید کرے، وہ متبادل لائحہ عمل بھی تجویز کرے۔ پچھلے چند دنوں میںکشمیر پالیسی پر غیر متناسب اور بلاجواز تنقید ہوتے دیکھی ہے۔ سوشل میڈیا پر لگتا ہے ایک خاص لابی جیسے مجنونانہ انداز کے اشتعال کا شکار ہے۔ بار بار کشمیر کا نام لے کر پاکستانی فوج، پاکستانی ریاست پر حملے ، بے بنیاد الزامات اور تضحیک آمیز پوسٹوں، کمنٹس کا سلسلہ جاری ہے۔ اپوزیشن کی بعض جماعتیں سیاسی طور پر شدید فرسٹریشن کا شکار ہیں۔ ان کے میڈیا سیل اوروفادار کارکنوں کی مایوسی اور جھنجھلاہٹ سمجھ میں آتی ہے۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے مگر اداروں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے ۔ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں سے کسی کو بھی اختلاف ہوسکتا ہے، ان کے سیاسی کردار پر تنقید ہوسکتی ہے، مگرپاک فوج کی بے پناہ قربانیاں کون نظرانداز کر سکتا ہے؟ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویہ کسی بھی صورت میں اینٹی آرمی اور اینٹی سٹیٹ نہ بننے پائے۔ ہماری اپوزیشن خاص کر ن لیگ کی قیادت کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے۔ پی ٹی ایم جیسے مشکوک پس منظر والے غیر معتبر گروپوں اور ایک بڑی وفاقی سیاسی جماعت کے رویے میں فرق ہونا چاہیے۔ سوشل میڈیا عوامی جذبات اور محسوسات کو ظاہر کرتا ہے، مگر وہاں گند بہت ہے اور چونکہ فیک آئی ڈی رکھنا آسان ہے ، اس لئے نفرت انگیز زہریلے ایجنڈے والے لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔سوشل میڈیا کا غور سے مشاہدہ کیا جائے تو ایسے بہت سے لوگ نظر آ جائیں گے جو باقاعدہ ایجنڈے کے تحت مختلف پوسٹوں پر جا کر مخصوص پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ ایک پوسٹ پر ان کے درجنوں کمنٹس مل جائیں گے۔ آدمی حیرت سے سوچتا ہے کہ یہ صاحب لگتا ہے زندگی میں اور کچھ بھی نہیں کرتے۔ ظاہر ہے ایسا نہیں۔ اوورسیز رہنے والے بھی زندگی چلانے کے لئے کچھ نہ کچھ کرتے ہی ہیں۔البتہ جس کی’’ ڈیوٹی‘‘ ہی یہی لگی ہو، ایجنڈا پھیلانے اور شکوک پیدا کرنے کے اسے پیسے ملتے ہوں، وہ ظاہر ہے پھر یہی کرے گا۔ سوشل میڈیا یوزرز کو اس حوالے سے محتاط رہنا چاہیے۔ اپنی فیس بک وال ملک دشمن، نفرت انگیز پروپیگنڈہ کے لئے استعمال نہ ہونے دیں اور ایسوں کو بلاک کر کے جان چھڑائیں۔ سوشل میڈیا پر ایک حلقہ ایسا ہے جو پیدائشی شکایت کنندہ ہے۔ شکوہ شکایت ان کے رگ رگ میں رچی بسی ہے۔ ایسے لوگ اپنی زندگی، گھر، ماحول، شہر، ملازمت غرض دنیا کی ہر چیز سے نالاں ہوتے ہیں۔ ہر ایک میں کیڑے نکالنے مرغوب مشغلہ ہے۔ ایسوں سے بھی خبردار رہنا چاہیے۔ یہ اپنی مایوسی اور ڈپریشن ایکسپورٹ کرنے کے ماہر ہیں، تھوڑی دیر میں ہر طرف مایوسی پھیلا کر چلتے بنیں گے۔ ہمارے قوم پرست طبقات کی اپنی ہی ایک کیٹیگری ہے۔قوم پرستی کی نفسیات میں ہر مسئلے کی ذمہ داری خارجی فیکٹرز پر ڈال دی جاتی ہے۔ قوم پرست کبھی داخلی احتساب یا اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک وہ سدا سے مظلوم ہیں اوران کی مشکلات کے ذمہ دار دوسرے ہیں۔ کسی کے نزدیک وفاق ظالم ہے تو کوئی مقتدرقوتوں کی طرف انگلی اٹھائے گا،بعض تخت لاہور کو ذمہ دار ٹھیرا دیں گے تو کچھ لوگ میڈیا پر لعن طعن کر کے بھڑاس نکالیں گے۔ سندھی، بلوچ، پشتون ، سرائیکی … ان چاروں قسم کے قوم پرستوں میں یہ باتیں مشترک ملیں گی۔ بڑی آسانی سے کسی بھی قوم پرست تحریک کا تجزیہ کر کے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے۔ ان میں تازہ اضافہ کشمیری قوم پرستوں کا ہے۔سیاسی اور عوامی سطح پر ان کی پوزیشن یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں ایک کونسلر کی سیٹ تک نہیں جیت سکتے۔سوشل میڈیا پر زہریلی پوسٹیں لگانے میںپیش پیش ملیں گے۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوم پرستی کی ڈھال اکثراپنے حقیقی خیالات وتصورات چھپانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ دراصل قوم پرست نہیں بلکہ علیحدگی پسند ہیں۔ وہ پاکستان کے وجود ہی کے مخالف ہیں۔ان میں سے اکثرکے نزدیک تقسیم ہند ہونی ہی نہیں چاہیے تھی ۔ بدقسمتی سے کانگریسی ذہن رکھنے والا مذہبی طبقہ بھی ایک خاص سطح پر ان کا ہم خیال ہے۔ان سب کو معلوم ہے کہ علیحدگی پسندی کا نام لینے سے شدید لعنت ملامت ہوگی، عوامی سطح پر بھی قطعی پزیرائی نہیں ملنی، اس لئے کمال ہوشیاری کے ساتھ خود کو کیموفالج کرتے ہوئے قوم پرستی کی ڈھال استعمال کرتے ہیں۔ یہ سب ایسے ہی ہے جس طرح ہمارے بیشتر ملحدین کبھی تشکیک پسندی کی نرم اور مبہم سی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور کبھی وہ سیکولرازم کی ڈھال پیچھے پناہ لیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ الحاد کا کھلم کھلا اظہار کیا گیا تو گھر والوں سے جوتے پڑیں گے، بیوی طلاق لے کر میکے جا بیٹھے گی۔سیکولرازم ، تشکیک پسندی وغیرہ کی اصطلاحات استعمال کر کے ان کی بچت ہوجاتی ہے، کلچرل اسلام کی بات کر کے وہ خود کو مزید محفوظ کر لیتے ہیں۔ حقیقت مگرزیادہ دیر چھپتی نہیں۔ قوم پرستی کا لبادہ اوڑھے علیحدگی پسندوں کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ وہ جلد خود کو ایکسپوز کر بیٹھتے ہیں۔ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ قوم پرست پروپیگنڈے کا کھل کر جواب نہیں دیا جاتا۔ ہم لوگ سوچتے ہیں کہ اگر صاف گوئی سے کام لیا تو یہ لوگ ناراض ہوجائیں گے، اس لئے دھیمے انداز میں دلیل کے ساتھ بات سمجھانی چاہیے۔ یہ رویہ بہت بار کام نہیں کرتا۔ ایک خاص سطح پر آدمی کو کھل کر سٹریٹ فارورڈ بیانیہ دینا چاہیے۔ مزے کی بات ہے کہ یہ لوگ مکالمے کی خواہش کرتے ، اس کی اہمیت بیان کرتے ہیں ، مگر جیسے کسی نے آئینہ دکھایا، تب فوری پسپا ہو کر قوم پرستی کی چھتری سر پر لے لی۔ تب طعن وتشنیع ہی واحد ہتھیار رہ جاتا ہے کہ آپ لوگ ہماری قوم کے مخالف ہو، پنجابی سامراج کے ایجنٹ ، پرو اسٹیبلشمنٹ اور پرو مرکز ہو۔ مجھے یاد ہے کہ سات آٹھ سال قبل جناب چودہ اگست کے موقعہ پر کوئٹہ ، زیارت گیا تھا۔ جناب ہارون الرشید صاحب ،برادرم خالد مسعود اور بھائی محمد طاہر ساتھ تھے۔جس اخبار میں ان دنوں کام کرتا تھا، واپسی پر اس میں کالموں کی سیریز شروع کی۔ تین کالم شائع ہوئے اور بی ایس او آزاد نے خاکسار کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کر دی۔خلاف خبریں لگوائیں، مضامین لکھے اور پھر بیورو آفس کو آگ لگانے، عملہ کو قتل کرنے کی دھمکیاں دیں گئیں۔ میرا چوتھا کالم کوئٹہ ایڈیشن میں شائع نہ ہوا اور پھر گروپ ایڈیٹر عباس اطہر صاحب نے بلا کر کہا کہ آپ جو لکھ رہے ہو، وہ درست ہے، مگرکوئٹہ آفس اور وہاں کے کارکنوں کے تحفظ کے پیش نظر اب اس موضوع پر کالم نہ لکھو۔مجبوراً وہ کالموں کی سیریز ادھوری چھوڑنا پڑی۔ خیر ان دنوں شدت پسند گروہ طاقت پکڑ رہے تھے، ریاستی اداروں نے بعد میں ان کا نیٹ ورک توڑ ڈالا اور اب کوئٹہ وغیرہ میں یکسر مختلف صورتحال ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھی بعض فکری مغالطے دانستہ طور پر سوشل میڈیا پر پھیلائے جا رہے ہیں، ان میں سے کچھ کا عکس مین سٹریم میڈیا پر بھی نظر آجاتاہے۔ ضرورت ہے کہ ان مغالطوں پر کھل کر بات ہونی چاہیے۔ جو سچ ہے ، اسے تسلیم کریں، جو غلط اور بے بنیاد بات ہے، اس کی حقیقت کھولی جائے۔ ان شااللہ اگلی نشست میں ان فکری مغالطوںکو ایک ایک کر کے زیربحث لائیں گے۔ یہ کالم اس بحث کی تمہید تصور کیا جائے۔ پارٹی ابھی شروع ہوئی ہے۔