مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی فوجی دہشت گردی لاگو کئے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ ہوگیا ہے جس نے مقبوضہ وادی کواس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا ہے۔ سری نگر سمیت وادی کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی اہم چوراہوں پر بھارتی فوج نے بلٹ پروف بنکرز بنا لیے ہیں۔کرفیو، لاک ڈاؤن، جگہ جگہ بھارتی فوجی تعینات۔ قابض بھارتی فورسز نے سری نگر کے جہانگیر چوک، بخشی سٹیڈیم، سبزی منڈی چوک میں بلٹ پروف بنکرز بھی قائم کر لئے۔لاک ڈاؤن کے باعث مقبوضہ وادی میں بچوں کے دودھ، ادویات اور اشیائے ضروریہ کی شدید قلت ہوگئی ہے جبکہ ٹیلیفون، موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی مسلسل بند ہیں۔ کشمیریوں کے لیے آواز اٹھانے والے عالمی اداروں کے خلاف بھارت کی سازشیں ناکام ہو گئیں۔غاصب بھارتی فوج کی جانب سے اب تک 40 ہزار سے زائد کشمیریوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ تمام تر بندشوں کے باوجود بھارتی فورسز کشمیریوں کا جذبہ آزادی نہ دباسکیں۔ بھارت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور روزانہ 20 کے قریب مظاہرے ہوتے ہیں۔ 44 روز میں مقبوضہ وادی میں 722 احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔مسلسل پابندیوں سے مقبوضہ وادی میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ بچے بوڑھے اور بیمار کرب کی کیفیت میں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ان حالات کی بنا پر انسانی حقوق کے تحفظ کے عالمی اداروں نے بھی بھارتی جارحیت کا پول کھول کر رکھ دیاہے۔ ایمنسٹی انڈیا نے بھی مقبوضہ کشمیرمیں جاری بھارتی بربریت کا چہرہ بے نقاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر میں انتظامی نظربندی کے قوانین کے تحت ہزاروں سیاسی رہنماؤں ، سماجی کارکنوں اورصحافیوں کو خاموش کروانے کا عمل جاری ہے جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیار کے منافی ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر کی تاریخ میں پیلک سیفٹی ایکٹ کو کئی بار غیر قانونی طریقے سے استعمال کیا جا چکا ہے۔ مودی حکومت نے ایمنسٹی کو کچلنے کی بدترین کوشش کی۔ بھارت نے سرکاری طور پر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسکی فورسز مقبوضہ وادی کشمیر میں 5 اگست سے اب تک چار ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لے چکی ہیں۔کرفیو اور مواصلاتی بندش سے ہر مذہب، عمر اور عقیدے کے تمام شہری بلاامتیاز متاثر ہوئے ہیں۔ بھارتی ڈاکٹروں کے مطابق صورہ ہسپتال سری نگر میں روزانہ چھ سے زیادہ مریض لاک ڈائون اور ادویات کی کمی کی وجہ سے شہید ہو جاتے ہیں۔ ہسپتال بند ہونے کی وجہ سے زخمی نوجوانوں کی مرہم پٹی مساجد میں لا کر کی جاتی ہے۔ گزشتہ ہفتے یورپی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر پر بحث میں بتایا گیا کہ بھارت نے کشمیر میں بڑی تعداد میں فوج بھیج رکھی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بہت سے سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق بحال کرے۔ ان حقائق کے سامنے آنے پر یورپی پارلیمنٹ میں ارکان بھارتی مظالم کے خلاف پھٹ پڑے۔چیئرمین انسانی حقوق کمیٹی ماریا ایرینا نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں دس لاکھ فوج ہے۔ رکن پارلیمنٹ پی پی ای نے کہا مقبوضہ کشمیر میں صورتحال قیامت خیز ہے جو ناقابل قبول ہے۔ محمد شفق ایم ای پی نے کہا کہ یورپ کو انسانی حقوق کیلئے کھڑا ہونا ہوگا۔ ایم ای پی گرین پارٹی کا کہنا تھا کہ بھارت کشمیری عوام کے بنیادی حقوق بحال کرے۔ رچرڈ کوریٹ نسوشلٹ نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں تمام حقوق معطل کر دیئے ہیں۔ لبرل پارٹی کے فل بینین نے کہا بھارت کے تمام اقدامات غیرقانونی ہیں۔ مبارک آئی پی پی نے کہا کہ بھارت کے جبر اور ظلم پر خاموشی پر مجھے شرم آتی ہے۔ یہ بات بھی مد نظر ہونی چاہیے کہ یورپی پارلیمنٹ کے اجلاس میں 12 سال بعد کشمیر کی صورتحال پر بحث ہوئی۔ یورپی یونین نے جنیوا میں ہونے والی انسانی حقوق کونسل کی قرارداد کا جائزہ لینے کے بعد کہا کہ کشمیر میں صورتحال انتہائی نازک ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق چاہتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں علاقائی تعاون آج سب سے زیادہ اہم ہے۔ مسئلہ کشمیر کو عالمی قوانین کے مطابق مذاکرات سے حل ہونا چاہئے۔ محصور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بیرون ملک کے ساتھ ساتھ اندرون بھارت بھی بہت سی آوازیں اٹھ رہی ہیں، ریلیاں اور جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ بھارتی ریاست پنجاب کے دارالحکومت چندی گڑھ میںمجوزہ ریلی میں شرکت کے لیے جانے والے ہزاروں افرادکو پولیس کی طرف سے روکنے پر مظاہرین نے احتجاجی دھرنے دیے اوربھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے پتلے نذر آتش کئے۔ موہالی میں بھی کسانوں اور طلباء کی مختلف یونینوں سے وابستہ خواتین سمیت درجنوں کارکنوںکو احتجاجی مارچ میں شرکت سے روکنے کے لیے گرفتارکیاگیا۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ان گروپوںنے پنجاب کے گورنر وی پی سنگھ بڈنورکے لیے ایک یادداشت تیار کی تھی جس میں دفعہ 370 اور35Aکی بحالی ، کشمیریوں کے لیے حق خودارادیت اورمقبوضہ کشمیر میںکالے قانون آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کی منسوخی کا مطالبہ کیاگیا ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے مظاہرین کو موہالی پہنچنے سے پہلے روکنے کا فیصلہ اس کے لیے الٹا پڑ گیا کیونکہ ہزاروں افراد نے وہیں پر دھرنا دیا جہاں پر ان کو روکا گیا۔ زیادہ تر دھرنے جنوبی پنجاب کے اضلاع بھٹنڈا، منسا، فریدکوٹ، مختصر،سنگرور، فیروز پور اور برنالہ میں دیے گئے جبکہ موہالی اور ترن تارن میں مظاہرین نے بھارتی وزیر اعظم کے پتلے بھی نذر آتش کردیے۔ریلیوں اور جلوس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت نے جس طرح دفعہ 370اور35A کو منسوخ کیا یہ بھارتی آئین اور پارلیمانی جمہوریت کے منافی اور کشمیری عوام کے انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔