اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل نے کورونا کی وبا اور آزادی اظہار رائے کے حوالے سے جاری رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات کو بنیادی انسانی حقوق کی پامالی قرار دیا ہے۔ ہیومن رائٹس کونسل کے مطابق انٹرنیٹ تک محدود رسائی سے طبی عملے کے لئے کورونا وبا کے متعلق ضروری معلومات حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ بھارت نے 7ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں فوجی لاک ڈائون کر رکھا ہے۔ کشمیر کے باشندوں کو اپنے کاروبار تک جانے کی اجازت نہیں۔ ٹیلی فون اور مواصلات کے دیگر رابطے منقطع کر دیے گئے ہیں۔بھارت نے مقبوضہ وادی میں ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ کسی کو اپنے گھر والوں کی خبر ہے نہ گھر والوں کو گھر سے باہر جانے والے افراد کی حفاظت اور سلامتی کے متعلق آگاہی۔ مقبوضہ کشمیر کے متعلق ایک خبر روزنامہ 92نیوز نے اتوار 3مئی کو شائع کی۔ یہی خبر باقی اخبارات نے اگلے روز شائع کی اس خبر نے مستقبل کی منظر کشی کر دی ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں نے کارروائی کر کے قابض فوج کے ایک کرنل ‘ میجر اور 4سپاہیوں کو ہلاک کر دیا۔ یہ کارروائی اس وقت کی گئی جب بھارتی فوج نے ایک علاقے کا محاصرہ کر کے مقامی آبادی پر ظلم شروع کر رکھا تھا۔ حریت پسندوں نے کئی گھنٹے تک بھارتی فوجیوں کو گھیرے میں لئے رکھا۔ مقبوضہ کشمیر عالمی بے حسی کے باعث دوسرا فلسطین بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بین الاقوامی نظام دوسری جنگ عظیم کے بعد تنازعات کو پرامن طریقے سے نمٹانے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن نتائج کا تجزیہ بتاتا ہے کہ صرف وہی تنازعات حل ہوئے جن کے حل میں بین الاقوامی طاقتوں کا مفاد تھا۔ کئی تنازعات کو سرد جنگ کی وجہ سے حل نہ کیا جا سکا۔ کشمیر بھی ایسا بدنصیب خطہ ہے جو پہلے سوویت یونین کی طرف سے بھارت کی غیر مشروط حمایت کے سبب التوا کا شکار رہا اور اب درپردہ امریکہ اس تنازع کو خطے میں اپنی طاقت متوازن رکھنے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ گزشتہ برس وزیر اعظم عمران خان امریکہ گئے۔ صدر ٹرمپ نے ملاقات کے دوران انکشاف کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نے انہیں کشمیر کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کا کہا ہے۔ یقینا یہ بھارت کے روائتی موقف میں ایک تبدیلی کا مظہر تھا۔ پاکستان نے صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا خیر مقدم کیا لیکن اگلے ہی ماہ 5اگست کو بھارت نے کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر دی۔ پاکستان تو اس آئینی حیثیت کو شروع دن سے تسلیم نہیں کرتا تھا لیکن یہ ان بعض کشمیری سیاستدانوں کے لئے بھی صدمے کا باعث ہوا جو بھارت سے الحاق کی آئینی حیثیت کا دفاع کیا کرتے تھے۔ بھارت نے یہی ظلم نہیں کیا کہ کشمیر کے ہر گھر کے سامنے بندوق بردار کھڑے کر دیے بلکہ حیلے بہانے سے چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا۔ کئی خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ کم سن لڑکوں کو گرفتار کر کے ایسے حراستی مراکز میں منتقل کیا گیا جہاں ان کی ذہنی تحلیل کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ ان بچوں کو نفسیاتی طریقوں سے بھارت کا وفادار اور پاکستان کا دشمن بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گزشتہ ماہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے متعلق نئی قانون سازی کی ہے۔ پہلے قانون یہ تھا کہ عالمی سطح پر جس علاقے کو متنازع تسلیم کیا ہو وہاں فیصلہ ہونے تک کوئی غیر مقامی ڈومیسائل رکھنے والا شخص جائیداد اور کاروبار نہیں رکھ سکتا۔ خود پاکستان نے آزاد کشمیر میں یہی قانون تسلیم کر رکھا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں 72برس سے جاری اس قانون کو ختم کر کے بھارت کے مختلف علاقوں سے انتہا پسند ہندو سرمایہ کاروں کو مقبوضہ وادی میں املاک خریدنے اور سرمایہ کاری کا کہا ہے تاکہ آبادی کا تناب تبدیل ہو سکے۔ یہ اقدامات مقامی آبادی میں مایوسی پیدا کرنے کا ذریعہ بن ہے ہیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر تنازع کشمیر دو بار آچکا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ہیومن رائٹس کمشن نے تین سے زائد بار مقبوضہ کشمیر میں غیر انسانی اقدامات کی گرفت کی۔ امریکہ میں مذہبی آزادیوں سے متعلق کمشن نے بھارت کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کی حالت پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خود امریکی حکام‘ یورپی یونین اور بین الاقوامی میڈیا کشمیر کی صورت حال کو ظلم قرار دے رہا ہے۔ حالیہ رپورٹ میں ایک بار پھر بھارت کی جانب سے پابندیوں کے نام پر سفاکانہ اقدامات اور رابطہ جاتی ذرائع کی بندش یقینا جدید دور کے تسلیم شدہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس رپورٹس سے یہ امید زندہ رہتی ہے کہ ساری دنیا تجارتی اور کاروباری مفادات کی خاطر بھارتی مظالم پر خاموش نہیںہے‘ کچھ ادارے‘ کچھ شخصیات آج بھی مصلحت کو پس پشت ڈال کر اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے آواز اٹھا رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے خود کو سفیر کشمیر قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں ان کا تاریخی خطاب اور ہر عالمی فورم پر تنازع کشمیر کی بات کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اس معاملے کا مذاکرات کے ذریعے حل نکالا جائے۔ بھارت نے مذاکراتی عمل مدت سے معطل کر رکھا ہے‘ کسی مشترکہ دوست ریاست کی ثالثی اسے قبول نہیں۔ اس صورت حال میں معاملہ پرامن طریقے سے حل ‘ہونے کا تاثر ‘مسلسل لاک ڈائون ‘پابندیوں اور تشدد کے شکار اہل کشمیر ایک بار پھر جہاد کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔