پاکستان اور چین نے بھارت کی طرف سے کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے کے بعد اگلے مرحلے کے اقدامات کو مسترد کر دیا ہے۔ کشمیر سے الگ کئے گئے علاقے لداخ کے لئے لیفٹیننٹ گورنر تعینات کیا گیا ہے جبکہ کشمیر کے لئے الگ گورنر نے حلف اٹھا لیا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھارتی اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اقدامات سے کشمیر کی متنازع حیثیت تبدیل نہیں ہو گی۔ دفتر خارجہ نے بھارتی اقدامات کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور شملہ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔دوسری طرف چین نے بھی بھارتی اقدامات کو بیکار اور غیر موثر قرار دیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازعے نے خطے کے دو ارب نفوس کی زندگی پچھلے 72برس سے تباہ کر رکھی ہے ۔کشمیری لگ بھگ دو صدیوں سے کسی نہ کسی صورت میں جبر و تسلط اور مظالم سہتے آ رہے ہیں۔ کشمیریوں کی ابتلا کا آغاز 10مارچ 1846ء سے اس وقت ہوا جب برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ 7لاکھ 75ہزار میں کشمیر بیچ دیا اور وہاں سکھ ریاست کی بنیاد رکھی ۔ سکھ مہاراجہ نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کیا تو وادی کی مسلم اکثریت میں بے چینی نے جنم لینا شروع کیا۔2اگست 1858ء میں جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد پورے ہندوستان پر برطانیہ کا قبضہ مکمل ہوا تو ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرح کشمیر میں بھی مزاحمت شروع ہوئی۔ جون1932ء میں شیخ عبداللہ اور چودھری غلام عباس نے کشمیریوں کے حقوق کے لئے آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی داغ بیل ڈالی۔1934ء میں ریاست جموں کشمیر میں انتخابات ہوئے مسلم کانفرنس نے مسلمانوں کے لئے مخصوص21نشستوں میں سے 14نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے الگ مسلم تشخص کو آئینی طور پر ثابت کر دیا۔ مئی 1946ء میں شیخ عبداللہ نے کشمیر سے نکل جائو تحریک کا آغاز کیا۔1946ء میں کشمیر کے مہاراجہ کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار کشمیریوں کو حاصل ہو گا اور کوئی اس عمل میں مداخلت نہیں کر سکے گا۔ تقسیم ہند کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیریوں کی خواہشات کے برعکس جب بھارت سے فوج بھجوانے کی درخواست کی تو کشمیری ہندوستان کے تسلط کے خلاف اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے سڑکوں پر نکل آئے کشمیریوں کی مزاحمت اور بعدازاں پاک بھارت جنگ پربھارت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ لے کر چلے گئے ۔پنڈت جواہر لعل نہرو نے سری نگر میں کشمیریوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کسی صورت بھی کشمیر پر قبضہ نہیں کرے گا اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزادی ہو گی۔ یہ کشمیریوں کے جذبہ حریت اور آزادی کی لگن کا ہی نتیجہ تھا کہ بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ آئین میں یہ شرط بھی رکھی گئی کہ بھارت کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکے گا۔بھارتی آئین میں یہ شق بھی رکھی گئی کہ بھارت کو آئین میں کشمیر کے حوالے سے تبدیلی سے پہلے مجوزہ قانون کو کشمیر اسمبلی کی منظوری درکار ہو گی ۔ بھارتی حکمرانوں نے نہ صرف مسئلہ کشمیر کو التوا کا شکار کئے رکھا بلکہ کشمیر میں اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے مختلف ادوار میں مختلف کوششیں بھی کی گئیں ۔ماضی میں متعدد بار ریاستی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے گورنر راج نافذ کیا گیا۔ یہاں تک کہ بھارت نواز سیاستدانوں کو بھی پابند سلاسل کرنا معمول بن گیا تھا مگر اس کے باوجود بھارت کشمیری رہنمائوں کو بھارتی تسلط قبول کرنے پر آمادہ نہ کر سکا تو بی جے پی کی ہندو انتہا پسند حکومت نے کشمیر اسمبلی کو تحلیل کر کے بھارت آئین کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ بھارت کے اس غیر قانونی غیر آئینی اقدام کی نہ صرف اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری نے مخالفت کی بلکہ بھارت میں بھی مودی سرکار کے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف آوازیں اٹھانا شروع ہوئیں ‘ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ مودی حکومت کشمیریوں کی آوازکو دبانے کیلئے وادی میں گزشتہ 88روز سے بدترین کرفیو اور ذرائع ابلاغ کو معطل کئے ہوئے ہے یہاں تک کہ مکار مودی سرکار نے عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے لئے متعصب اور اسلام دشمن اراکین یورپی پارلیمنٹ کے کشمیر کے دورے کا ڈھونگ رچایا ۔اس کے ارکان نے بھی کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کشمیر میں 88روز سے کرفیو نافذ ہے جس کی وجہ سے انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ ان حالات میں بھارت نے کشمیر میں گورنر مقرر کرکے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کو عملی صورت ہی نہیںدی ہے بلکہ چین کی کی عملداری میں لداخ کے متنازع اضلاع پر بھی بھارتی قبضہ کو حتمی شکل دے دی ہے۔ بھارت کی جانب سے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ 72سال سے جاری ہے‘ اس قبضے کی نئی شکل اس طرح سامنے آئی ہے کہ کشمیری شہریوں کو گھر سے نکلنے کی آزادی ہے نہ احتجاج کا حق دیا جا رہا ہے۔ مہذب دنیا کو سوچنا ہو گا کہ کروڑوں افراد کی زندگی موت کا معاملہ کب تک مصلحت کا شکار رکھا جائے گا۔ کسی ملک کا مسلسل عالمی معاہدوں‘ اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور مقبوضہ علاقے کی آبادی کی مرضی کے بغیر قبضہ اس بات کی علامت ہے کہ ہٹ دھرم اور غاصب ریاستوں کو عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے سے روکنے کا نظام اب تک فعال نہیں ہو سکا۔پاکستان اور چین نے کشمیر اور لداخ پر بھارتی قبضہ قبول نہ کرنے کا اعلان کیا ہے بہتر ہو گا پاکستان اور چین مقبوضہ علاقوں کو بھارتی تسلط سے آزادی دلانے کے لئے مل کر سعی کریں تاکہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو خاک میں ملا کر کشمیریوں کو بھارتی ظلم سے نجات دلائی جا سکے۔