مقبوضہ کشمیر میں ڈیڑھ ماہ کے کرفیو اور مسلمانوں کو مذہبی فرائض سے بزور شمشیر روکنے کے بعد تازہ صورتحال کو ہماری حکومت نے انتہائی کامیابی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ وزیر اعظم عمران خان اوروزیر خارجہ کی کامیاب سفارتکاری کا مقصد بھارت کو عالمی دباؤ میں لانا ہے تاکہ بھارت فی الفور مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھائے اور کشمیریوں کو کم از کم آزادانہ سانس لینے کا حق تو دے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے معاملے کو عالمی سطح پر مزید اجاگر کرنے کے لیے سفارتی رابطوں میں تیزی لائی جا رہی ہے ۔ چین، امریکا، روس اور دیگر ممالک سمیت اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر سفارتی رابطوں میں ان کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور بھارتی مظالم سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔ان ممالک اور عالمی فورم سے رابطوں کے سبب مودی حکومت پر عالمی برادری کے سفارتی دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے عالمی برادری کو آگاہ کیے جانے پر مودی حکومت بوکھلاہٹ اور سفارتی دباؤ کا شکار نظر آرہی ہے۔ ابھی دو دن قبل ہی جنیوا میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی تشویشناک صورتحال پر 50 سے زائد ممالک کا مشترکہ اعلامیہ بھارت کے لئے آئینہ ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہیومن رائٹس کونسل میں شامل ممالک نے بھارت کے سامنے 5 مطالبات پیش کردیے۔مشترکہ اعلامیے میں پہلا مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ بھارت کشمیریوں سے جینے کا حق نہ چھینے اور انہیں جینے دیا جائے۔ دوسرے مطالبے میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں مسلسل 37 روز سے جاری کرفیو فوری طور پر ختم کیا جائے۔تیسرے مطالبے میں بھارت سے کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی میڈیا کشمیر میں مواصلات کے کریک ڈاؤن کی تصدیق کرچکا ہے اور کشمیر میں مواصلات کو یقینی بنایا جائے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔چوتھے مطالبے میں کئی ذیلی مطالبات رکھے گئے ہیں جن کے تحت مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کا تحفظ، آزادی اور گرفتار افراد کو رہا کرنے کے ساتھ ساتھ پیلٹ گن سمیت طاقت کے بے جا استعمال سے گریز کیا جائے۔اسی کے ساتھ مطالبہ کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو دورے کی اجازت دی جائے۔ پانچواں اور اہم مطالبہ یہ کہتا ہے کہ جموں و کشمیر کے حل کیلئے پرامن طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ طاقت سے نہیں بلکہ مذاکرات سے حل ہوگا۔ قانونی مفادات کا حصول اور پرامن زندگی کشمیریوں کا حق ہے۔عالمی برادری کا کشمیر کے مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا اوربھارت سے بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کا مطالبہ مظلوموں کے لئے باعث حوصلہ ہے۔ پوری دنیا بھارتی جبر اور طاقت کے بہیمانہ استعمال کے خلاف یک زبان ہے۔ بھارتی غروروتکبر خاک میں مل رہا ہے۔ اب تک جو بھی کشمیر گیا ہے اس نے ریاست کے حالات کے متعلق جہنم کا نقشہ ہی کھینچا ہے اور کانگرس کے صدر راہول گاندھی سے لے کر اْن تمام رہنماؤں تک نے جو اْن کے ساتھ سری نگر ایئر پورٹ تک چلے گئے تھے اور انہیں کشمیر میں جانے نہیں دیا گیا۔ایک ہی بات کہی کہ کشمیر کی صورت حال بہت خراب ہے اور بڑے انسانی المیے کا خطرہ ہے۔ کرفیو کی خلاف ورزی پر اب تک دس ہزار سے زیادہ کشمیر ی گرفتار ہو چکے ہیں اگر صورتِ حال قابو میں ہوتی تو اتنے طویل کرفیو کی ضرورت نہ تھی،نہ وسیع پیمانے پر گرفتاریاں کرنا ضروری تھا۔ دنیا میں شاید ہی کسی علاقے میں اتنے طویل عرصے کے لئے کرفیو نافذ کیا گیا ہو۔ عالمی سطح کے ساتھ ساتھ خود بھارت کے اندر سے بھی کشمیریوں کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ بھارتی سماجی کارکنوں اور بائیں بازو کی تنظیموں کے ارکان کے ایک گروپ نے 9 سے 13 اگست تک کرفیو زدہ مقبوضہ کشمیر کا 5 روزہ دورہ کیا۔ اس گروپ میں ماہر معیشت دریز، نیشنل ایلائنز آف پیپلز موومنٹ کے ویمل بھائی، سی پی آئی ایم ایل پارٹی کی کویتا کرشنن اور ایپوا کی میمونا ملاہ شامل تھیں۔کشمیر سے واپسی کے بعد انہوں نے نئی دہلی میں پریس کلب آف انڈیا میں کشمیر کی صورتحال پر اپنے مشاہدے پیش کیے۔ سماجی کارکن کویتا کرشنن نے کہا کہ ہندوستانی میڈیا کی خبروں کے برخلاف کشمیر کی صورتحال تشویش ناک ہے۔ کشمیریوں میں قید اور جیل میں رہنے کا احساس موجود ہے۔لوگوں کو بولنے کی اجازت نہیں دی جارہی اور حالات انتہائی سنگین ہیں۔ کویتا کا کہنا تھا کہ بھارت آل از ویل (سب اچھا ہے) کہنے کے بجائے اگر آل از ہیل (سب جہنم جیسا ہے) کہے تو سچ ہوگا۔ کشمیریوں سے بات چیت میں چند الفاظ بار بار سنائی دیے، بربادی، بندوق، زیادتی، قبرستان اور ظلم۔ دریز نے کہا کہ میڈیا پر کشمیر کی حقیقی خبریں نہ دکھانے کے لیے بہت دباؤ ہے اس لیے میڈیا غیر جانبدار طریقے سے کام نہیں کر رہا ہے۔ وادی کشمیر جو اپنے قدرتی حسن، پرشکوہ پہاڑوں اور امن وآشتی کے لئے مشہور تھی وہ گزشتہ 30 برس سے ایمرجنسی کی حالت میں ہے۔ اب اس خطے میں ظلم و تشدد کی حکمرانی ہے جہاں انسانی اقدار اپنے معنی کھو چکے ہیں۔ ریاست کو بھارتی فوجی اپنے بوٹوں تلے کچل رہے ہیں۔ بھارت نے حالیہ اقدام سے قبل مقبوضہ علاقے میں فوجی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا جو دنیا بھر میں واحد علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ تعداد میں فوج تعینات ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی سات لاکھ فوج بے گناہ کشمیریوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اور اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کر چکی ہے۔یوں پورا کشمیر لہو لہان ہو چکا ہے۔ کشمیریوں پر ان مظالم کے ساتھ ساتھ ان کے مال واسباب کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ صرف اس لئے کہ شائد وہ ڈر کر اپنے حق خودارادی کے مطالبہ سے دستبردار ہو جائیں لیکن جان و مال کی تباہی بھی ابھی تک کشمیریوں کے پائے استقلال میں لغزش تک پیدا نہیں کر سکی۔
مقبوضہ کشمیر پر پاکستانی مؤقف:50 ممالک کی حمایت
هفته 14 ستمبر 2019ء
مقبوضہ کشمیر میں ڈیڑھ ماہ کے کرفیو اور مسلمانوں کو مذہبی فرائض سے بزور شمشیر روکنے کے بعد تازہ صورتحال کو ہماری حکومت نے انتہائی کامیابی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ وزیر اعظم عمران خان اوروزیر خارجہ کی کامیاب سفارتکاری کا مقصد بھارت کو عالمی دباؤ میں لانا ہے تاکہ بھارت فی الفور مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھائے اور کشمیریوں کو کم از کم آزادانہ سانس لینے کا حق تو دے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے معاملے کو عالمی سطح پر مزید اجاگر کرنے کے لیے سفارتی رابطوں میں تیزی لائی جا رہی ہے ۔ چین، امریکا، روس اور دیگر ممالک سمیت اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر سفارتی رابطوں میں ان کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور بھارتی مظالم سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔ان ممالک اور عالمی فورم سے رابطوں کے سبب مودی حکومت پر عالمی برادری کے سفارتی دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے عالمی برادری کو آگاہ کیے جانے پر مودی حکومت بوکھلاہٹ اور سفارتی دباؤ کا شکار نظر آرہی ہے۔ ابھی دو دن قبل ہی جنیوا میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی تشویشناک صورتحال پر 50 سے زائد ممالک کا مشترکہ اعلامیہ بھارت کے لئے آئینہ ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہیومن رائٹس کونسل میں شامل ممالک نے بھارت کے سامنے 5 مطالبات پیش کردیے۔مشترکہ اعلامیے میں پہلا مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ بھارت کشمیریوں سے جینے کا حق نہ چھینے اور انہیں جینے دیا جائے۔ دوسرے مطالبے میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں مسلسل 37 روز سے جاری کرفیو فوری طور پر ختم کیا جائے۔تیسرے مطالبے میں بھارت سے کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی میڈیا کشمیر میں مواصلات کے کریک ڈاؤن کی تصدیق کرچکا ہے اور کشمیر میں مواصلات کو یقینی بنایا جائے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔چوتھے مطالبے میں کئی ذیلی مطالبات رکھے گئے ہیں جن کے تحت مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کا تحفظ، آزادی اور گرفتار افراد کو رہا کرنے کے ساتھ ساتھ پیلٹ گن سمیت طاقت کے بے جا استعمال سے گریز کیا جائے۔اسی کے ساتھ مطالبہ کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو دورے کی اجازت دی جائے۔ پانچواں اور اہم مطالبہ یہ کہتا ہے کہ جموں و کشمیر کے حل کیلئے پرامن طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ طاقت سے نہیں بلکہ مذاکرات سے حل ہوگا۔ قانونی مفادات کا حصول اور پرامن زندگی کشمیریوں کا حق ہے۔عالمی برادری کا کشمیر کے مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا اوربھارت سے بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کا مطالبہ مظلوموں کے لئے باعث حوصلہ ہے۔ پوری دنیا بھارتی جبر اور طاقت کے بہیمانہ استعمال کے خلاف یک زبان ہے۔ بھارتی غروروتکبر خاک میں مل رہا ہے۔ اب تک جو بھی کشمیر گیا ہے اس نے ریاست کے حالات کے متعلق جہنم کا نقشہ ہی کھینچا ہے اور کانگرس کے صدر راہول گاندھی سے لے کر اْن تمام رہنماؤں تک نے جو اْن کے ساتھ سری نگر ایئر پورٹ تک چلے گئے تھے اور انہیں کشمیر میں جانے نہیں دیا گیا۔ایک ہی بات کہی کہ کشمیر کی صورت حال بہت خراب ہے اور بڑے انسانی المیے کا خطرہ ہے۔ کرفیو کی خلاف ورزی پر اب تک دس ہزار سے زیادہ کشمیر ی گرفتار ہو چکے ہیں اگر صورتِ حال قابو میں ہوتی تو اتنے طویل کرفیو کی ضرورت نہ تھی،نہ وسیع پیمانے پر گرفتاریاں کرنا ضروری تھا۔ دنیا میں شاید ہی کسی علاقے میں اتنے طویل عرصے کے لئے کرفیو نافذ کیا گیا ہو۔ عالمی سطح کے ساتھ ساتھ خود بھارت کے اندر سے بھی کشمیریوں کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ بھارتی سماجی کارکنوں اور بائیں بازو کی تنظیموں کے ارکان کے ایک گروپ نے 9 سے 13 اگست تک کرفیو زدہ مقبوضہ کشمیر کا 5 روزہ دورہ کیا۔ اس گروپ میں ماہر معیشت دریز، نیشنل ایلائنز آف پیپلز موومنٹ کے ویمل بھائی، سی پی آئی ایم ایل پارٹی کی کویتا کرشنن اور ایپوا کی میمونا ملاہ شامل تھیں۔کشمیر سے واپسی کے بعد انہوں نے نئی دہلی میں پریس کلب آف انڈیا میں کشمیر کی صورتحال پر اپنے مشاہدے پیش کیے۔ سماجی کارکن کویتا کرشنن نے کہا کہ ہندوستانی میڈیا کی خبروں کے برخلاف کشمیر کی صورتحال تشویش ناک ہے۔ کشمیریوں میں قید اور جیل میں رہنے کا احساس موجود ہے۔لوگوں کو بولنے کی اجازت نہیں دی جارہی اور حالات انتہائی سنگین ہیں۔ کویتا کا کہنا تھا کہ بھارت آل از ویل (سب اچھا ہے) کہنے کے بجائے اگر آل از ہیل (سب جہنم جیسا ہے) کہے تو سچ ہوگا۔ کشمیریوں سے بات چیت میں چند الفاظ بار بار سنائی دیے، بربادی، بندوق، زیادتی، قبرستان اور ظلم۔ دریز نے کہا کہ میڈیا پر کشمیر کی حقیقی خبریں نہ دکھانے کے لیے بہت دباؤ ہے اس لیے میڈیا غیر جانبدار طریقے سے کام نہیں کر رہا ہے۔ وادی کشمیر جو اپنے قدرتی حسن، پرشکوہ پہاڑوں اور امن وآشتی کے لئے مشہور تھی وہ گزشتہ 30 برس سے ایمرجنسی کی حالت میں ہے۔ اب اس خطے میں ظلم و تشدد کی حکمرانی ہے جہاں انسانی اقدار اپنے معنی کھو چکے ہیں۔ ریاست کو بھارتی فوجی اپنے بوٹوں تلے کچل رہے ہیں۔ بھارت نے حالیہ اقدام سے قبل مقبوضہ علاقے میں فوجی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا جو دنیا بھر میں واحد علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ تعداد میں فوج تعینات ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی سات لاکھ فوج بے گناہ کشمیریوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اور اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کر چکی ہے۔یوں پورا کشمیر لہو لہان ہو چکا ہے۔ کشمیریوں پر ان مظالم کے ساتھ ساتھ ان کے مال واسباب کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ صرف اس لئے کہ شائد وہ ڈر کر اپنے حق خودارادی کے مطالبہ سے دستبردار ہو جائیں لیکن جان و مال کی تباہی بھی ابھی تک کشمیریوں کے پائے استقلال میں لغزش تک پیدا نہیں کر سکی۔
آج کے کالم
یہ خبر روزنامہ ٩٢نیوز لاہور میں هفته 14 ستمبر 2019ء کو شایع کی گی
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں