پلوامہ ضلع میں14فروری 2019ء کو عادل احمد ڈار کے قابض بھارتی فوج پر فدائی حملے کے بعد انڈیا کے جنگی طیاروں نے26فروری 2019ء منگل کی شب سہ پہر کو منقسم کشمیرکی جنگ بندی لائن عبورکرکے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ۔ انڈین فضائیہ کے طیارے کشمیرکی جنگ بندی لائن عبور کر کے مظفرآباد سیکٹر میں کئی میل اندر آئے اوربالاکوٹ کے جنگلات میں بم گراکرواپس چلے گئے۔تاہم یہ بم نہ تو کسی عمارت پر گرے اور نہ ہی اس سے کوئی جانی نقصان ہوا ہے۔خیال رہے کہ یہ71کے بعد پہلا موقع تھا کہ انڈین جنگی طیارے آزادکشمیرسے داخل ہوکربالاکوٹ تک جاپہنچے ۔ 30مارچ 2019ء کو بانہال میں کاربم حملے کے بعدقابض بھارتی فوج نے فوجی کانوائے کی آمد و رفت کے پیش نظر سرینگر جموں روڈہفتے میں 2دن عام ٹریفک پرمکمل طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا ۔ موجودہ کمپوٹر ائزڈدورمیں جب ہرشئے نپی تلی اورکیلکولیٹیڈہے اور زندگی اس برق رفتاری سے رواںدواںہے کہ لمحے کی کوتاہی اورایک منٹ کی دیربے پناہ نقصان کاباعث بن جاتاہے۔ اس حقیقت کے پیش نظرقابض بھارتی فوج کا ہفتے میں دو دن جموںوکشمیرکی سب سے بڑی شہراہ پرسویلین ٹریفک کی نقل و حمل بند رکھنے کاا قدام انتہائی بزدلانہ اور ظالمانہ تھا ۔ بھارتی فوج کے بزدلانہ فیصلے کے تحت ہر ہفتے میں 2دن بدھ اوراتوارکوجموں سرینگر روڈ فوجی گاڑیوں کے علاوہ ہر قسم کے ٹریفک کی نقل وحمل پر مکمل پابندی سے72برسوں میں پہلی بارمقبوضہ کشمیرکے 7ہزار دیہات جوجموں سری نگرروڈ کے آس پاس واقع ہیں تک رسائی متاثر ہوئی جبکہ 2یونیورسٹیوں سمیت 700 تعلیمی ادارے، 24ضلع و سب ضلع اسپتالوں تک مریضوں کی رسائی مسدود ہو گئی۔7 اپریل 2019ء اتوار سے قابض بھارتی فوج کے اس بزدلانہ فیصلے کااطلاق ہوگیاتھا۔ ان دودنوں کے دوران صبح 4بجے سے شام 5بجے تک سرینگر سے جموں یعنی بارہمولہ سے ادہم پور روڈ پرعام ٹریفک کو چلنے کی اجازت نہیں تھی جبکہ صرف فوجی گاڑیوںکی آمد و رفت جاری تھی۔ یہ پابندی بارہمولہ سے ہوتے ہوئے سرینگر، قاضی گنڈ،جواہر ٹنل، بانہال، اور رام بن کے علاوہ ادہمپور پر عائد تھی۔کشمیر پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ یہ دراصل کشمیریوں کی سسکتی زندگی کو مزید منجمد کرنے کی دانستہ کوشش تھی۔ 7اپریل2019ء کوسنٹرل جیل سری نگرمیں اس وقت افراتفری کا ماحول پیدا ہوا جب اسیران کشمیراور جیل انتظامیہ نے اسیران کشمیرکووادی کشمیرسے باہربھارتی عقوبت خانوں میں منتقل کرنا شروع کیا ہے جس کے بعد اسیران کشمیراور جیل انتظامیہ کے درمیان پوری رات جھڑپوں اور احتجاج کا سلسلہ چلتارہا۔ قابض بھارتی فوج نے مداخلت فی الدین کاایک بارپھرارتکاب کرتے ہوئے 5اگست 2019ء سے کشمیرکی تاریخی جامع مسجد سری نگرکومحاصرے میں لے لیااورپورے5ماہ تک مسلمانان کشمیر کواس عظیم الشان مسجدمیں نمازجمعہ کی ادائیگی سے روک لیاگیاہے۔ اس طرح گزشتہ پانچ ماہ سے تاریخی جامع مسجد سری نگرمیںنمازجمعہ ادانہ ہوسکی۔ تاریخی جامع مسجد سرینگر کی سخت سے سخت ناکہ بندی کر دی گئی ہے اوراسے مسلسل محصور رکھا گیاہے۔ 5اگست 2019ء کوبھارت نے پاکستان کی شہہ رگ کاٹ دی ،ایل او سی کوختم کرکے اسے انٹرنیشنل باڈربنادیا۔کشمیری جوخم ٹھونک کر اورعلیٰ الاعلان پاکستانی ہیں کے صفحہ ہستی سے مٹانے کے ناپاک بھارتی منصوبے پرعمل پرشروع کردیاگیاہے ۔ 5اگست 2019ء دسمبر2019ء تک پانچ ماہ سے کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنی رہی۔ پانچ اگست 2019ء کو بھارتی پارلیمنٹ نے کشمیر کو حاصل وہ سبھی اختیارات کالعدم قرار دیے تھے، جن کے تحت غیرکشمیریوں کو یہاں جائیداد کی ملکیت اور نوکریوں کا حق حاصل نہ تھا۔بھارتی حکومت کے اس جابرانہ اقدام سے وہ سب ختم ہوگیا تو عوامی ردعمل کے خدشے کی وجہ سے مودی حکومت نے5 اگست سے31دسمبر2019 ء تک کرفیو نافذ کیا اور دیگر قدغنوں کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ اور فون رابطے معطل کردیے۔ فون رابطے اور انٹرنیٹ پانچ ماہ سے مسلسل بند رہاہے، جس سے زندگی کے تمام شعبے متاثر ہوئے ہیں۔ 5اگست2019ء سے 31دسمبر2019ء تک مسلسل کشمیر کے 90 لاکھ لوگوں پر جن میں خواتین، بچے اوربوڑھے شامل ہے پر10 لاکھ قابض بھارتی فوجی اہلکاروں کے پہرے بٹھادئے گئے ہیں، ان پانچ ماہ کے دوران مقبوضہ کشمیرکے گلی کوچوں اورچوک چوراہوں میں عام شہری نظر آئے یا نہ آئے خاکی رنگ ضرور نظر آتارہاہے، بچوں کے کھلونے دکھے یا نہ دکھیں لیکن ہتھیار کی نکیلیں ،فوجی بوٹوں کی دھمک اوربے حدوحساب جارحیت دیکھے جاسکتے تھے۔ جو نگاہیں ظلم کو ظلم کے طورپر نہیں دیکھ پاتیں، جنہیں لٹی پٹی انسانیت نہیں دکھائی دیتی،جن کی زبانیں بڑی بڑی باتیں بولتی ہیں مظلومین کی صورتحال پروہ اس قدرگنگ ہوجاتی ہیں کہ ان کے حق میں ایک لفظ بھی بول نہیں سکتی ۔ بلکہ اس کے علیٰ الرغم مظلومین کے رقص بسمل پربغلیں بجا رہے ہیں، منطقی دلیلیں دے رہے ہیں، ستم رسیدگان کی آہیں کچل رہے ہیںیہ تو کھلی فرعونیت ہے۔اسی فرعونیت کی کرشمہ سازی ہے کہ زخم پر زخم لگتے گئے اور زخم سلنے کے بجائے کھلتے اور رستے چلے گئے۔ عجب حال ہے کہ عالمی قوتوں میں سے 2019ء کے ان پانچ ماہ تک کشمیری مسلمانوں کے صدائے درد پر کوئی کان نہ دھر سکا، سینے میںغم اور آنکھوں کا اشک کوئی محسوس بھی نہ کرسکا،کشمیرمیں بہتے ہوئے خون کے دھارے کوروکنے کے لئے کوئی سامنے نہیں آیااور زیاں ہوتے انسانوںکوبچانے کے لئے کوئی آواز نہ آئی کہ اس بات کوالم نشرح بناتاہے کہ عالمی چوہدریوں میں انسانیت کو سمجھنے والا کوئی موجود نہیں؟،اور اس خاص مزاج اوردورخی پالیسی کوطشت از بام کرتاہے کہ جومسلمانوں کے تئیں اپنائی جارہی ہے ؛ اے دل تمام نفع ہے ڈالرکا، کاروبار جانوں کا زیاں ہو سو ایسا زیاں نہیں