امریکہ کی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ کشمیر کے گرفتار سیاسی رہنمائوں کو رہا کرے۔ انہوں نے مودی حکومت سے سفارت کاروں کو مقبوضہ کشمیر تک رسائی دینے اور متنازع شہریت قانون میں تمام اقوام کو تحفظ دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی طرح ان کے دیگر حکام بھی گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کو اس مقام پر لے آئے ہیں کہ وہ زبانی حمایت کے بدلے پاکستان سے افغانستان اور چین سے متعلقہ پالیسی پر اہم تبدیلیوں کا مطالبہ کرتے ہیں‘ صدر ٹرمپ متعدد بار کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں۔ اب ایلس ویلز بھارت سے کشمیر کے سیاسی رہنمائوں کی رہائی کا کہہ رہی ہیں۔ امریکی مطالبات پر مودی حکومت کان دھرنے کو تیار نہیں لیکن امریکہ چاہتا ہے کہ کشمیر کے متعلق اپنے بیانات کی قیمت پاکستان سے پوری طرح وصول کی جائے۔امریکہ کے لئے کشمیر اس لئے اہم ہے کہ یہ دو ایٹمی ریاستوں کے درمیان تنازع ہے۔ ایک سپر پارو کے طور پر عالمی سکیورٹی کا نظام متوازن رکھنا امریکہ کی ذمہ داری ہے۔ امریکہ کی تنازع کشمیر میں دلچسپی کی ایک ٹھوس وجہ ہے۔1998ء میں جب دونوں ممالک نے ایٹمی دھماکے کئے تو امریکی مفادات اس وقت بھی کشمیر سے جڑے ہوئے تھے تاہم امریکہ کی کسی حکومت نے اس تنازع کے حل کے لئے وہ کردار ادا نہ کیا جس کی اس سے توقع کی جا رہی تھی۔ بش انتظامیہ اسے پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ تنازع قرار دے کر دو طرفہ مذاکرات پر زور دیتی رہی۔ اس سلسلے میں وہ 1972ء کے شملہ معاہدے اور پھر 1999ء کے اعلان لاہورکا حوالہ دیتے۔ بش انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ان معاہدوں کی موجودگی میں وہ دونوں ہمسایہ ریاستوں کے باہمی جھگڑے میں ثالثی کا کردار ادا نہیں کر سکتی۔ آزادی کے لئے مسلسل لڑتے کشمیریوں کو توقع رہی ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ میںاپنے اثرورسوخ کا استعمال کر کے مظلوم کشمیریوں کی مدد کرے گا لیکن ان کی توقعات 72برس میں پوری نہیں ہو سکیں۔ بھارت 1998ء میں مجاہدین کی جانب سے کشمیر کا ایک بڑا حصہ آزاد کرائے جانے کے بعد خود اقوام متحدہ میں گیا اور وزیر اعظم نہرو نے استصواب رائے کا وعدہ کر کے پاکستان اور مجاہدین سے جنگ بندی کی اپیل کی۔ عالمی برادری کی ضمانت پر پاکستان نے اس وعدے پر اعتبار کیا۔ بھارت کی ہر حکومت نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو غیر موثر کرنے کے لئے پاکستان کا کشمیر پر موقف بدلنے کی کوشش کی‘ کبھی ثقافتی اور تجارتی تعلقات پہلے شروع کرنے کہا اور کبھی کشمیر کے متعلق کسی مخصوص فارمولے کی بات چھیڑی۔ ان تمام کوششوں میں بھارت کو مقبوضہ کشمیر کے چند کشمیری سیاستدانوں کاتعاون حاصل رہا۔ ان ہی سیاستدانوں کی مدد سے بھارت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت اپنے آئین میں شامل کر لی۔ دوسری طرف کشمیر میں مسلح جدوجہد بڑھنے لگی۔ بھارت نے مجاہدین کی سرگرمیاں کم کرنے کے لئے کشمیریوں کو مذاکرات میں الجھایا۔ یاسین ملک جیسے کئی گوریلا لیڈر عسکریت پسندی چھوڑ کر سیاسی انداز میں مکالمہ پر آمادہ ہوئے۔ بھارت بتدریج کشمیریوں کو پاکستان سے کاٹنے کی کوشش کرتا رہا اور جب اسے اس میں ناکامی ہوئی تو اس نے مقبوضہ وادی میں فوج کی تعداد بڑھا دی۔5اگست 2019ء کو مودی حکومت نے یکطرفہ طور پر کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر کے اسے بھارت کا حصہ بنا دیا۔ اس پر کشمیریوں کے متوقع ردعمل سے بچنے کے لئے مزید فوج تعینات کی گئی اور پورے کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ پانچ ماہ ہو رہے ہیں کشمیری اس جبر کی فضا میں جی رہے ہیں‘ جانے جی بھی رہے ہیں یا نہیں۔نائن الیون کے بعد امریکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی عسکری اور جہادی قوت کو اپنے لئے خطرہ سمجھنے لگا۔ بھارت نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور امریکہ کو باور کرایا کہ کشمیر میں آزادی کے لئے سرگرم مجاہدین کا طالبان اور القاعدہ سے رابطہ ہے۔ اس شرانگیزی سے بھارت نے کشمیریوں کے لئے عالمی حمایت کم کرنے کی سازش کی۔ بھارت نے خود کو امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ جوڑ کر دہشت گردی کا ہدف ظاہر کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح اسے افغانستان میں رسائی ملی اور وہ پاکستان کا عالمی سطح پر متحرک کردار محدود کرنے میں کامیاب ہوا‘ پاکستان کے لئے یہ ایک مشکل صورت حال تھی۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا برسر اقتدار آنا پاکستان کی مشکلات میں اضافے کا موجب بنا۔ بھارت نے اس موقع کو ایک بار پھر اپنے فوائد کے لئے خوب استعمال کیا۔ پاکستان کے لئے ان حالات میں کوئی موزوں حمایت دستیاب نہ تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کو مسلسل نظر انداز کر رہے تھے۔ اس صورت حال میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے معاملے نے ایک موقع پیدا کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ پاکستانی قیادت سے رابطہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ عمران خان نے وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد ساری توجہ داخلی امور پرمرکز کی۔ بعدازاں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ خود کو کشمیریوں کا سفیر سمجھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ سے ان کی تین ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ ان تینوں ملاقاتوں میں ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی۔ پاکستان نے اس دوران امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو ممکن بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ پاکستان ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کے خاتمہ کے لئے بھی متحرک ہے۔ پاکستان بار بار یہ واضح کر رہا ہے کہ وہ تنازع کشمیر کا پرامن حل چاہتاہے۔ اس صورت حال میں امریکہ کی نائب معاون وزیر خارجہ کا سی پیک پر اعتراضات وارد کرنا‘ پاکستان کو متبادل سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنا اور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لئے مدد فراہم کرنے کی بات کرتے ہوئے کشمیری رہنمائوں کی رہائی کے لئے بھارت سے مطالبہ باقاعدہ ریاستی موقف کی تائید چاہتا ہے۔پاکستان اور کشمیری اب بیانات نہیں ٹھوس حمیات چاہتے ہیں۔ امریکہ ان توقعات پر پورا نہ اترا تو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ اس کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔