سرینگر ،نئی دہلی( نیوزایجنسیاں،نیٹ نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)مقبوضہ کشمیر میں سخت کرفیو کے باوجود مختلف علاقوں میں عوام پھر گھروں سے باہر نکل آئے اور بھارت کیخلاف شدید مظاہرے کئے جبکہ مقبوضہ وادی میں حالات بدستور کشیدہ ہیں اور خوف کی فضا برقرار ہے ،سکولز کھلنے کے باوجود بچے غیر حاضر ہے ۔گزشتہ روزمقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی جانب سے لگائے گئے کرفیو کے باوجود 15 ویں روز بھی کشمیریوں نے بھارت مخالف مظاہرے کئے ۔جگہ جگہ بھارتی فورسز کے ناکوں کے باوجود صورہ، رعنا واری، نوہٹا اور گوجوارہ سمیت کئی علاقوں میں مظاہرین کی جانب سے پاکستانی پرچم لہرا کر گو انڈیا گو اور بھارت سے آزادی کے حق میں نعرے لگائے گئے ۔تاہم مقبوضہ وادی کے بیشترعوام گھروں میں محصور ہیں۔ سنسان سڑکوں پر قابض بھارتی فورسز کا گشت جاری ہے اور حریت قیادت اور سیاسی رہنما بدستور گھروں میں نظر بند یا جیلوں میں قید ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق نئی دہلی میں حقوق انسانی کے ایک گروپ کی جانب سے جاری تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 5 اگست کو بھارتی حکومت کی طرف سے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کئے جانے کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور پولیس کے مظالم کا سلسلہ جاری ہے ۔بھارتی فوج نے گھر گھر تلاشی ، چھاپوں اور سرچ آپریشن کے دوران متعدد خواتین اور بچیو کو عصمت دری کا نشانہ بنا ڈالا جبکہ سینکڑوں کشمیری لڑکوں کو گرفتار کرلیا ہے ۔ رپورٹ کشمیر بھر میں سینکڑوں متاثرہ افراد سے گفتگو کے بعد تیار کی گئی۔ تاہم گروپ کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ تمام لوگ کیمرے کے سامنے بولنے سے بہت خوفزدہ تھے ۔برطانوی خبر رساں ادارے ’ ’رائٹرز‘ ‘کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکام کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں نافذ کرفیو میں نرمی کے بعد سری نگر میں 190 پرائمری سکولز کھل گئے ۔تاہم والدین کا کہنا ہے کہ انکے بچے سکول نہیں جائینگے جب تک موبائل فون سروسز بحال نہیں ہوجاتیں اور وہ بچوں سے باآسانی رابطہ نہ کر سکیں۔سری نگر کے ضلع بٹامالو میں واقع سکول کے 2 طلبا کے والد گلزار احمد نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کی زندگی کو خطرے میں کیسے ڈال سکتے ہیں؟۔ گزشتہ 2 ہفتوں میں بھارتی فوجیوں نے بچوں کو گرفتار کیا ہے اور کئی بچے جھڑپوں میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔ہمارے بچے اپنے گھروں میں محفوظ ہیں، اگر وہ سکول جائینگے تو انکی حفاظت کی ضمانت کون دے سکتا ہے ؟۔رائٹرز کے صحافیوں نے سری نگر کے 2 درجن سکولوں کا دورہ کیا، کچھ سکولوں میں عملہ کم تعداد میں موجود تھا جبکہ کلاس رومز ویران تھے ، دیگر سکولوں کے دروازوں پر تالے لگے ہوئے تھے ۔پریزینٹیشن کانونٹ ہائیر سیکنڈری سکول کے عہدیدار نے بتایا کہ سکول میں کُل طلبا کی تعداد ایک ہزار ہے اور صرف ایک طالبعلم حاضرہوا، جو بعد ازاں گھر واپس چلا گیا۔سری نگر میں سخت سکیورٹی کے علاقے میں واقع برن ہال سکول میں چند اساتذہ موجود اور تمام طلبا غیر حاضر تھے ۔ایک ٹیچر نے کہا کہ اس غیر مستحکم صورتحال میں طلبہ کیسے سکول آسکتے ہیں؟ حکومت ان چھوٹے بچوں کو توپوں کا نشانہ بنا رہی ہے ۔ صورتحال بہتر ہونے تک سکول بند رہنے چاہئیں۔