مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہاں بھارت سے ہندوؤں کو لا کر بسایا جائے اور یوں کشمیر کی آبادی میں مسلم اکثریت کو ختم کیا جائے۔ غیر کشمیری ہندوؤں کو کشمیر میں بسانے کیلئے زمین کی ضرورت تھی جو کہ 370 آرٹیکل کے تحت ممکن نہ تھا کیونکہ اس آرٹیکل کے تحت کوئی بھی غیر کشمیر ، مقبوضہ وادی میں جائیداد یا زمین نہیں خرید سکتا تھا۔ اسی لئے آرٹیکل کو ختم کر کے فلسطین میں یہودیوں کی بستیوں کی طرح یہاں ہندوؤں کی بستیاں بسائی جانے لگیں۔ بستیاں بسانے کیلئے زمین کی ضرورت ہے جس کیلئے جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے کے دوران بھارتی انتظامیہ جھوٹے مقدموں کے ذریعے کشمیریوں کی جائیداد ہتھیانے لگی ہے۔ قابض بھارتی فوج اور انتظامیہ’’ اسرائیلی ماڈل‘‘ پر عمل درآمد کرتے ہوئے کشمیریوں کی جائیدادوں پر انتہاپسند ہندوؤں کو آباد کیا جاسکے اور نسل کشی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلا جائے۔بھارتی وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر میں ’’اسرائیلی ماڈل‘‘پر کام کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس کا اعلان بھارتی وزیراعظم کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آیا تھا۔ لاک ڈاؤن اور مسلسل کرفیو کے باعث وادی میں ایک سوپچیس دنوں سے خوف و ہراس کا ماحول اور غیر یقینی کی صورت حال برقرار ہے تاہم کشمیریوں کی بڑی تعداد تمام تر پابندیوں کے باوجود آئے روز اپنے حقوق کے لیے قابض فوج کے خلاف مظاہرے کر رہی ہے۔مقبوضہ وادی میں دکانیں، تجارتی مراکز، اسکول اور دفاتر بدستور بند ہیں۔ کشمیر میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز بھی بدستور معطل ہیں جب کہ سرد موسم کے باعث کشمیریوں کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے مطالبہ کیا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں بند کرے۔ تنظیم کے انسانی حقوق کمیشن نے یو این سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی قراردادوں کے تحت کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے۔کمیشن کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کی نسل کشی اور قتل عام جاری ہے۔ بھارت کے پانچ اگست کے اقدامات غیر قانونی اور غاصبانہ ہیں۔ نہتے کشمیریوں پر پیلٹ گنز کا استعمال کیا جا رہا ہے اور کشمیریوں کی گرفتاریوں اور ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ بھی جاری ہے۔گزشتہ دنوں برطانوی اخبار کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بھارتی فورسز مقبوضہ کشمیرمیں خواتین کے ساتھ مردوں کوبھی زیادتی کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ پوری آبادی ذہنی اورجسمانی زیادتیوں کا شکارہے. بھارت نے اپنے زیر انتظام متنازعہ ریاست جموں وکشمیر میں پارلیمان کے اگست میں منظور کردہ قانون کو نافذ کرتے ہوئے اس متنازعہ علاقے کوبراہ راست وفاق کی عمل داری میں دے دیا گیا ہے۔اس قانون کے تحت مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر کو وفاق کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ بھارتی حکومت کے اس فیصلے کے نفاذ سے قبل ریاست میں سکیورٹی فورسز کو ہائی الرٹ کردیا گیا تھا اور پورے علاقے میں ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔ وزیراعظم نریندرمودی کی حکومت نے جی سی مرمو کو ریاست کا نیا منتظم مقرر کیا اور ان کے عہدے کو لیفٹیننٹ گورنر کا نام دیا گیا۔انھوں نے حال ہی میں اپنا منصب سنبھالاہے۔پہلے اس متنازع ریاست کا منتظم اعلیٰ گورنر کہلاتا تھا۔بھارتی حکام نے ریاست کے زیر انتظام ریڈیو اسٹیشن کا نام بھی تبدیل کردیا ہے۔پہلے اس کا نام ریڈیو کشمیر سری نگرتھا۔اب اس کا نام آل انڈیا ریڈیو سری نگر ہوگا۔ ریڈیو سری نگر نے 1947ء میں ہندوستان کی برطانیہ سے آزادی سے قبل اپنی نشریات شروع کردی تھیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے زیر قیادت انتہا پسند ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کو اس متنازع قانون کے نفاذ سے قبل ریاست کشمیر کے شہروں اور دیہات میں تعینات دیا گیا تھا تاکہ بھارت مخالف مظاہروں پر قابو پایا جاسکے۔بھارتی حکومت کے اس نئے اقدام کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کو ایک پرچم اور ریاستی آئین سے محروم کردیا گیا ہے بھارتی پارلیمان کے ایک رکن اور ریٹائرڈ کشمیری جج حسین مسعودی نے اس اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’آج کشمیر میں ہر چیز تبدیل ہوگئی ہے۔ہم ایک ریاست سے ایک بلدیہ میں تبدیل ہوکر رہ گئے ہیں۔یہ تمام مشق ہی غیرآئینی ہے۔اس کا طریقہ اور طریق کار غیر جمہوری ہے۔عوام کوبے توقیر کیا گیا ہے اور ان سے کبھی مشاورت نہیں کی گئی ہے۔‘‘ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کے لئے مسلمان ناموں والے مقامات کے نام تبدیل کرکے ہندو نام رکھنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ مقبوضہ علاقے میں اہم عمارتوں ، ہسپتالوں، ہوائی اڈوں، کرکٹ سٹیڈیم اور شاہراہوں کے نام آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈروں کے نام سے منسوب کرنے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے۔ اس سے قبل ان جگہوں کے نام مسلم شخصیات کے نام پر رکھے گئے تھے کیونکہ کشمیر کا علاقہ ہمیشہ سے مسلم اکثریت کا علاقہ رہا ہے۔ وادی میں شیخ محمد عبداللہ کے نام سے منسوب متعدد مقامات یا اداروں کو سردار پٹیل اور بی جے پی کے دیگر بانیوںکے نام سے منسوب کیاجا رہا ہے حالانکہ شیخ عبداللہ کی بھارت نوازی میں کبھی کوئی شک نہیں رہا مگر یہ صرف اس لئے ہو رہا ہے کہ شیخ عبداللہ مسلمان تھے۔ بین الاقوامی کنونش سینٹر، انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ، سرینگر پارک کرکٹ اسٹیڈیم اور انڈور اسٹیڈیم سمیت متعدد مقامات اور ادارے جو شیر کشمیر کے نام سے منسوب تھے کو اب ہندو انتہا پسند لیڈروں کے نام سے منسوب کیا جارہا ہے۔ سرینگر جموں ہائی وے پر ساڑھے گیارہ کلو میٹر طویل چنانی ناشری سرنگ کانام بھی تبدیل کر کے اب شیاماپرساد مکھر جی سرنگ رکھا جارہا ہے۔ بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر نے انکشاف کیاہے کہ مقامات اور اداروں کو سردار پٹیل کے نام سے منسوب کرنا پارٹی کا دیرینہ مطالبہ تھا۔