سرینگر(نیوزایجنسیاں )مقبوضہ کشمیر میں بدھ کو مسلسل 101ویں روز بھی معمولات زندگی مفلوج رہے ۔ بھارتی فوجیوں کی بھاری تعداد میں موجودگی کے ساتھ دفعہ 144کے تحت سخت پابندیاں بھی عائد ہیں۔وادی کے لوگوں کو انٹرنیٹ، ایس ایم ایس اورپری پیڈ موبائل سروسز سے مسلسل محروم رکھا جارہا ہے ۔ لوگوں نے بھارتی قبضے کیخلاف اپنا خاموش احتجاج جاری رکھتے ہوئے دکانیں اور کاروباری مراکز بندرکھے ہیں جبکہ تعلیمی ادارے اور سرکاری دفاتر ویرانی کا منظر پیش کررہے ہیں۔ سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہے تاہم کہیں کہیں نجی گاڑیاں چل رہی ہیں۔ دکانیں صرف صبح اور شام کو مختصر وقت کیلئے کھلتی ہیں ۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سرینگر میں صحافیوں نے احتجاجی مارچ کیا۔ متعدد صحافی کشمیر پریس کلب سرینگر پر جمع ہوئے اور انٹر نیٹ سمیت مواصلاتی ذرائع کی معطلی اور دیگر پابندیوں کیخلاف احتجاجی مارچ کیا۔ صحافیوں نے ہاتھوں میں خالی سکرینوں کیساتھ لیپ ٹاپ اورپلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر’’100دن کوئی انٹرنیٹ نہیں‘‘اور’’کشمیر ی صحافیوں کی تذلیل بند کرو‘‘ جیسے نعرے درج تھے ۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی فورسز کے اہلکار سادہ کپڑوں میں ملبوس ہوکر نجی گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں اوراپنے گھر سے باہرکسی بھی نوجوان کو گرفتارکرلیتے ہیں، جیسے علاقے میں نوجوان ہونا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے ۔ بھارتی فورسز کے ہاتھوں گرفتار لڑکوں کے اہلخانہ نے صحافیوں کو بتایا کہ قابض حکام نہ صرف ان کے بچوں کو اٹھاتے ہیں بلکہ گرفتار بچوں کو دیئے جانے والے کھانے کے پیسے بھی ان سے وصول کرتے ہیں ۔ رہاہونے والے تین نوجوانوں نے بتایا انہیں نہ صرف ایک ہفتے کیلئے گرفتاررکھا گیا بلکہ ان پر شدید تشددبھی کیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق قابض انتظامیہ مقبوضہ کشمیر کے تین سابق کٹھ پتلی وزرائے اعلیٰ نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداﷲ، ان کے بیٹے عمر عبداﷲ اور پی ڈی پی کی صدرمحبوبہ مفتی کو جو اسوقت سرینگر میں نظر بند ہیں، جموں منتقل کرنے پر غور کررہی ہے ۔