ایسے وقت میں جب ساری دنیا کورونا وبا سے مقابلہ میں مصروف ہے ‘ بھارتی ریاست نے اپنی روایتی مکاری سے کام لیتے ہوئے مقبوضہ جمو ں کشمیر ریاست کو ہڑپ کرنے کی طرف ایک اور بڑا قدم اُٹھایا ہے۔ چند روز پہلے بھارتی حکومت نے ایک نیا ڈومیسائل قانون جاری کیا جس کے تحت مقبوضہ ریاست میں بھارت کے دیگر باشندوں کو بڑے پیمانے پر آباد کیا جاسکے گاجیسے اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں دنیا بھر کے یہودیوں کو آباد کیا ہے۔مقصد یہ ہے کہ جموں کشمیر ریاست میں زمینی حقائق تبدیل کردیے جائیں‘ اُسکے کشمیری تشخص ‘اُسکی مخصوص تہذیب کو تحلیل کردیا جائے اوراس خطّہ میں مسلمانوں کی غالب اکثریت کو بتدریج اقلیت بنا دیا جائے۔ آٹھ ماہ پہلے پانچ اگست کو بھارت نے مقبوضہ جموں کشمیرریاست کو اپنے ملک کے آئین میں آرٹیکل 370 کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور کشمیری عوام کے ردّعمل سے بچنے کی خاطر کشمیر وادی کا لاک ڈاؤن کردیا تھا جو اب تک جاری ہے۔ کشمیریوں کے ٹیلی فون ‘ انٹرنیٹ کے استعمال پر بھی پابندی ہے تاکہ کشمیری باہر کی دنیا سے رابطہ نہ کرسکیں ‘ اپنی حالت ِزار کے بارے میں دنیا کو آگاہ نہ کرسکیں۔آزاد ذرائع کے مطابق مقبوضہ کشمیر میںپانچ لاکھ سے زیادہ بھارتی فوج‘ ایک لاکھ پولیس اور تیس ہزار خصوصی پولیس تعینات ہے تاکہ کشمیری عوام بھارتی اقدامات کے خلاف احتجاج نہ کرسکیں۔مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے تحت ریاست کو اپنا جھنڈا رکھنے‘ اپنے قوانین نافذ کرنے کی اجازت تھی۔ کشمیر سے تعلق نہ رکھنے والے بھارتی یہاں کا ڈومیسائل حاصل نہیں کرسکتے تھے ‘ نہ ریاست میں زمین‘ جائیداد خرید سکتے تھے۔خصوصی آئینی حیثیت ختم ہونے کے بعد جموں کشمیر کے یہ تمام حقوق اُن سے چھین لیے گئے جن کے وعدہ پر شیخ عبداللہ ایسے کشمیری رہنماؤں نے بھارت کے ساتھ ملنا قبول کیا تھا ۔ اب کشمیریوں کے حقوق کو مزید پامال کرنیکی غرض سے بھارتی حکومت نے ڈومیسائل کا جو نیا قانون نافذ کیا ہے اسے جموںو کشمیر ری آرگنائزیشن آرڈر 2020 کا نام دیا گیا ہے۔ اسکے مطابق ہر وہ بھارتی شخص جو پندرہ سال مقبوضہ کشمیر میں رہ چکا ہو، اسے کشمیر کا مستقل رہائشی تسلیم کیا جائے گا‘ ہر وہ شخص جو سات سال تک مقبوضہ کشمیر کے کسی تعلیمی ادارہ میں تعلیم حاصل کرتا رہا ہو یا اس نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان یہاں کے بورڈ سے پاس کیا ہو وہ بھی کشمیری ڈومیسائل حاصل کرسکے گا۔ اِس قانون کے مطابق بھارت کی مرکزی حکومت کے ملازمین جو اس علاقہ میں دس سال تک تعینات رہے ہوں وہ جموں کشمیر کا ڈومیسائل لینے کے اہل ہوں گے۔ اس قانون کے نافذ ہونے سے بھارت کے تمام شہریوں کو جموں کشمیر میں سرکاری ملازمت کرنے کا حق دیدیا گیا ہے جو پہلے صرف ریاست کے مستقل باشندوں کو حاصل تھا۔ صرف درجہ چہارم کی ملازمتوں پرمستقل باشندوں کا خصوصی حق رہنے دیا گیا ہے۔نئے قانون کے تحت وہ ہندو اور سکھ جو قیام پاکستان کے بعدہجرت کرکے جموں کشمیر ریاست میں جا کر آباد ہوگئے تھے انہیں بھی مقبوضہ ریاست کا ڈومیسائل مل جائے گا۔بھارت کے مسلمانوں کی غالب اکثریت غریب ہے ‘ وہ تو کشمیر میں جاکر زمین‘ جائیداد نہیں خرید سکتے۔صرف دولت مند ہندو جموںکشمیر میں زمین خریدیں گے ۔ مقبوضہ کشمیر پر پالیسی بنانے میں بھارت کا اُستاد اسرائیل ہے ۔ کشمیر پر اپنا غیرقانونی قبضہ جاری رکھنے کی خاطر بھارت ہر وہ کام کررہا ہے جو اسرائیل فلسطینیوں کو اُن کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے لیے ستّر برسوں سے کرتا آرہا ہے۔ اس نے نیا قانو ن بھی اُن اسرائیلی قوانین کی طرز پر بنایا ہے۔نئے قانون کے تحت مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرکے آزاد کشمیریا پاکستان آجانے والے مہاجر بھی اپنی کشمیری شہریت سے محروم ہوجائیں گے جیسے لاکھوں فلسطینی مہاجر ۔ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں غیرقانونی یہودی بستیاں آباد کرکے جو غاصبانہ قبضہ کیا ہے وہی کام بھارت مقبوضہ کشمیر میں شروع کرنے جارہا ہے۔ ان اقدامات کے بعد کشمیر کے باشندے اپنی شناخت‘ تعلیم کے مواقع‘زمین کی ملکیت کے حقوق کے بارے میں ایک نئی تشویش اور اضطراب میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ کشمیری رہنماؤں اور دانشوروں نے ڈومیسائل قانون کی سخت مذ مت کی ہے لیکن طاقت کے نشہ میں بدمست بھارتی ریاست پر اسکا کوئی اثر نہیں۔ بھارت کی پالیسی ہے کہ طویل عرصہ تک طاقت کے زور پر کشمیر کی مزاحمت کو دبائے رکھو تاکہ کشمیری بالآخر تھک ہار کر بیٹھ جائیں ۔ بھارت کاخیال ہے کہ دنیا بھر کے ممالک کورونا کی وبا سے نپٹنے میں لگے ہوئے ہیں‘ ایسے موقع پر عالمی برادری کشمیر کے معاملہ پر زیادہ توجہ نہیں دے گی ۔ یوں بھی جب بھارت نے کشمیر کا خصوصی آئینی درجہ ختم کیا تھا تو عالمی برادری نے اس کے خلاف کوئی مؤثر آواز نہیں اٹھائی تھی۔ حتی کہ پاکستان‘ ترکی اور ملائشیا کے سواتمام مسلمان ملکوں نے بھی خاموشی اختیار کرلی تھی۔ایران نے بھی صرف لاک ڈاؤن کی سختی پر تنقیدکی تھی‘ خصوصی حیثیت ختم کرنے پر نہیں۔ اب بھی بین الاقوامی برادری سے کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی مؤثر امداد کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔دنیا کوبھارت سے وابستہ اپنے معاشی مفادات زیادہ عزیز ہیں۔ ہلکی پھلکی بیان بازی بھی ہوجائے تو غنیمت ہے‘ اسکے لیے بھی پاکستان کو ایک زوردار سفارتی مہم چلانا پڑے گی۔ کشمیری اپنی آزادی اورحقوق کے تحفظ کی جنگ میںاس وقت تنہا ہیں۔پاکستان کو ان کی ہر ممکن مد دکے لیے آگے بڑھناچاہیے کیونکہ بھارتی جارحیت کا یہ سلسلہ رُکے گا نہیں۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ اگلے مرحلہ میں بھارت طاقت کے زور پرمقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو آزاد کشمیر کے طرف ہجرت کرنے پر مجبور کرسکتا ہے جس سے ایک نیا بحران جنم لے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے تازہ اقدامات خود پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔