بھارت میں کوروناکے قہرکے مہیب سایے مقبوضہ جموں و کشمیرپربھی پڑے ہیں اوریہاں روزانہ کورونا متاثرین کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ جس سے عوامی حلقے تشویش میں مبتلا ہیں۔ کورونا معاملات میں اضافہ کے سبب جموں وکشمیر ہائیکورٹ کو دوروز کیلئے بند کیاگیا۔منگل 8 ستمبر 2020 ء کورونا وائرس سے مزید 14افراد فوت ہو گئے جس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 900 ہو گئی جن میں سے 113جموں جبکہ 723 کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ماہرین طب کاکہناہے کہ مقبوضہ وادی کشمیر میں گزشتہ چندایام سے کوروناکادائرہ اثر بڑھتاہی چلا جا رہا ہے اورمنگل 8ستمبرکو ایک مرتبہ پھر سے ریکارڈ 1355افراد کی رپورٹیں مثبت آئی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کورونامتاثرین کی مجموعی تعداد45ہزار کا ہندسہ پار کرکے 45925ہوگئی ہے۔ ان میں 13203 جموںجبکہ وادی کشمیر میں یہ تعداد 32722 تک پہنچ گئی۔ تازہ 1355متاثرین میں سے 785جموں جبکہ 570وادی کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ جموں کے 785متاثرین میں سے سب سے زیادہ483 جموں 55 راجوری، 31 کٹھوعہ، 59 ادھمپور، 20سانبہ، 7رام بن، 35 ڈوڈہ، 43پونچھ، 17ریاسی اور 35کشتواڑ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کشمیر میں تازہ 570متاثرین میں سے 210 سرینگر، 31 پلوامہ، 94 بڈگام، 44 اسلام آباد، 32 بانڈی پورہ، 53 کپوارہ، 10کولگام، 16 شوپیان، 45 گاندر بل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وادی کشمیرکے سینئر ڈاکٹرزکاکہناہے کہ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ وادی کشمیرمیں کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے صلاحیت بڑھائی جاتی اورعارضی اسپتال قائم کئے جاتے ۔لیکن اس کے برعکس یہاں غیر ریاستی باشندوں کوڈومسائل کی اجرائی کی طرف ساری توجہ مرکوزرہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے سارے اسپتالوں کا کام کاج انتہائی بری طرح متاثر ہوا ،اور ہمارے سارے طبی مراکز عام مریضوں کیلئے تقریبا بند ہوگئے کیونکہ او پی ڈی شعبہ کئی مہینوں تک بند رہا اور اب جب اس کو فعال بھی کیا گیا تو لوگوں کے دلوں میں ان مراکز میں جانے کا اتنا ڈر ہے کہ وہ گھروں میں ہی مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ وادی کشمیرکے سینئر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ہر ضلع کے میںکورونا مریضوں سے نمٹنے کیلئے عام ہسپتالوں سے دور کم سے کم دو عمارتیں مخصوص رکھی جانی چاہیں تھیں تاکہ عام ہسپتالوں کے کام کاج کو بلا خلل جاری رکھا جاسکتا لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ کشمیرکے بیشترطبی ماہرین اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ کورونا مریضوں کیلئے الگ سے اسپتال قائم کئے جانے چاہیں جہاں تعینات معالج صرف اور صرف انہی مریضوں کے ساتھ مصروف رہیں۔اس کی ضرورت اس لئے بھی محسوس کی جارہی ہے تاکہ باقی ماندہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مریضوں کا علاج و معالجہ اور کی زندگیاں بچانے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ ہو اور ہسپتالوں کو وائرس سے پاک رکھا جاسکے جہاں بیماروں کے ساتھ ساتھ تیمارداروں کا بھی بھاری رش رہتا ہے۔ لیکن اکثر ماہرین کہتے ہیں کہ ایسا لاک ڈاون کے دوران کیا جانا چاہئے تھا۔ مودی سرکار کی ایماپررواں برس کے ماہ جولائی میں غیرریاستی باشندوں ’’بھارتی ہندئووں‘‘ کی ایک بڑی تعداد کو فوجی گاڑیوں میں لاد کر وادی کشمیر لایا گیا تاکہ انہیں ریاست جموں وکشمیرکی شہریت کا سرٹیفکیٹ دیاجائے ۔ان میں غالب اکثریت کورونا وائرس متاثرین کی تھی یہی وجہ بنی کہ وادی کشمیرمیں کورونا بڑی تیزی اوربڑے پیمانے پرپھیلا۔حالانکہ اسلامیان کشمیرنے غیرریاستی باشندوں ’’بھارتی ہندئووں‘‘ کوکشمیرلانے کے خلاف احتجاج بھی کیا لیکن کشمیرمیں گورنری سرکار نے اسے کسی خاطر میں نہیں لایااوراپنے ناپاک منصوبوں پرعمل درآمدکراتی رہی۔ کورونا وباکے باعث گزشتہ دنوں وادی کشمیر میں کئی غیرریاستی باشندے ’’بھارتی ہندئووں‘‘ کی موت بھی واقع ہوئی لیکن اس کے باوجودوہ وادی چھوڑ کرواپس نہیں جاتے ۔جس سے اندازہ لگ جاتا ہے کہ انہیں واپس جانے سے جان بوجھ کر روکا جا رہا ہے تاکہ ان کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ کشمیری مسلمان کوروناوائرس سے متاثر ہوجائیں۔ واضح رہے کہ بھارت کورونامتاثرین کے حوالے سے اب دوسرے نمبرپر آچکاہے اورامریکہ کے بعد اب بھارت اپنے جرائم اورمسلم کشی کی سزابھگت رہا ہے ۔یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ بھارت میں کورونا وائرس سے روزانہ نوے ہزار کورونامتاثرین منظر عام پر آرہے ہیں جبکہ اس وباسے ہردن ایک ہزارسے زائد لوگوں کی موت واقع ہورہی ہے ۔بھارت سے کورونا وباجوصورتحال سامنے آرہی ہے اورجواعداد و شمار بتائے جارہے ہیں تواس سے صاف طور پر پتا چلتا ہے کہ چین میں مجموعی طوروائرس سے کل جتنے لوگ متاثر ہوئے اتنی تعداد تو بھارت میں ایک دن میں سامنے آتی ہے۔ حالانکہ چین کے ہاں بھارت سے زیادہ آبادی ہے اور بھارت کو وائرس نے چین کے بہت بعد اپنی لپیٹ میں لیا ۔ عام لوگوں کاخیال ہے کہ ابتدامیںجب وائرس کا پھیلائو محدود تھا اور جموں کشمیر میں متاثرین کی تعداد چند سو تھی تولوگوں سے تدابیراختیارکرنے پرلیکچر دیئے جاتے تھے لیکن جوں جوں متاثرین کی تعداد بڑھتی گئی توں توں پابندیاں بھی ہٹائی گئیں اور لوگوں کو یہ احساس دلانا شروع کیا گیا کہ انہیں اب وائرس کے ساتھ ہی جینا پڑے گا۔ ادھر بھارت کی حزب اختلاف گانگریس نے مودی سرکارکوآڑھے ہاتھوں لیکراس پرتنقیدکے تیربرسائے ۔راہول گاندھی نے اچانک نافذ لاک ڈان کو حملہ قرار دیا اور کہا لاک ڈان کورونا پر حملہ نہیں تھا۔ لاک ڈان ہندوستان کے غریبوں پر حملہ تھا۔ ہمارے نوجوانوں کے مستقبل پر حملہ تھا۔ لاک ڈان مزدوروں، کسانوں اور چھوٹے تاجروں پر حملہ تھا۔ ہماری غیر منظم معیشت پر حملہ ہوا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا اور ہم سب کو اس حملے کے خلاف ایک ساتھ مل کر کھڑا ہونا ہوگا۔راہول کاکہناتھاکہ مودی نے ہندوستانیوں سے وعدہ کیا تھاکہ وہ 21دن میں کورونا ختم کریں گے لیکن کورونا کی شدت اوراس کی حدت پھیلتی ہی چلی گئی اوراگرمودی نے کچھ ختم کیا توکروڑوں روزگار اور کاروبارختم کیا۔ایک ویڈیو بیان میںراہول گاندھی کاکہناتھاکہ کورونا کے نام پر جو کچھ کیا گیا وہ غیر منظم شعبے پر تیسرا بڑا حملہ تھا کیونکہ غریب لوگ روز کماتے ہیں اور روز کھاتے ہیں۔ چھوٹے اور متوسط طبقے کے کاروباری افراد کا بھی یہی حال ہے۔