زندگی ہے تو اونچ نیچ ہوتی رہے گی۔ پھر موت سب کوبرابر کردیتی ہے۔ اچھی بری زندگی موت پر بھی اثر انداز ہوا کرتی ہے۔ قوموں کی زندگی میں اچھائی اور برائی اوپر سے نیچے کو منتقل ہوتی ہے۔ راجہ کے درباری ہی کل سیدھی رکھتے ہیں اور بگاڑ فساد بھی یہی سکھاتے بتاتے ہیں۔ راجہ کے سنگھاسن کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی نشہ دربار چڑھا رہتا ہے۔ ہر کاروں کا نشہ ذرا دھیرے دھیرے بڑھتا ہے تو وہ راجہ کو بھی مات کرنے میں طاق ہوتے ہیں۔ رہی بات کوتوال کی تو اس کو کون پوچھے کہ تیری ٹوپی کی کلغی ٹیڑھی کیوں؟ کوتوال خرگوش کو اونٹ بتائے تو خرگوش کیوں نہ ڈرے۔ جہاں جانور خوف میں دہشت زدہ ہوں وہاں غریب، بے کس انسانوں پر تو وحشت کا آسیب دن رات ناچا کرتا ہے۔ یہی کچھ ہوا ساہیوال میں کہ دور تک سیانوں کا قحط نظر آ رہا تھا۔ اوپر سے نیچے تک ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اندھی ناگن کے رقص پر مشق ہوتی رہی۔ بے حس، بے علم اور بے خبر محض سنگھاسن کے بچاری، کوتوال کو مضبوط کر رہے ہیں۔ کاغذان کے ہاتھ میں۔ قلم ان کی انگشت بے رحم کی گرفت ہیں، وثیقہ حیات کی فائل ان کے دفتر میں، اب ع جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے پنجاب کی بدقسمتی کہ یہاں کی قانونی وزارت پر وہ چارہ گر آکڑوں بیٹھے ہیں جن کی سدھ بدھ سنگھاسن میں اٹکی ملے گی۔ ایک دور میں مونچھوں کو تائو دینے والا خود کو نواب کالا باغ کو حکمرانوں کا قدرۃ الامرا سمجھ کر بے دھیان بولتا تھا۔ بے تکاں ڈولتا تھا، اس کو مروا، اس کو پٹوا اور ژاژ خالی کی تانیں اڑا، اس کا روزمرہ کا مشغلہ دل تھا۔ سوچ تو صرف اندھی ناگن کی سی تھی۔ ماڈل ٹائون میں معصوم جانوں کو ماں کے پیٹ میں ہی قتل کروا دیا تھا۔ فرعون کا سا انداز تھا کہ کسی معصوم کو جنم ہی لینے نہ دو۔ فرشتہ صفت، حیا پیکر خواتین کے جبڑے گولی سے چروا دیئے تھے۔ پنجاب اسمبلی میں شور اٹھا تو جبری لڑکھڑائی زبان سے کہا کہ ذرا دماغ ٹھیک کر رہے ہیں۔ حالات گزرے، آثار بدلے اب تخت پر نہیں رہے۔ خون بولتا ہے۔ سرچڑھ کر بولتا ہے۔ تختے پر لا پھینکتا ہے۔ ایک شور برپا ہے کہ ساہیوال کی سڑک پر خاتون قتل ہوئی۔ نوخیز فرشتہ صفت بیٹی بھی لقمہ اجل بن گئی۔ دوپہر کا روشن سورج تھا، اندھیرا تو تھا نہیں، کیمرے کی آنکھ بھی کھلی تھی۔ اندھے تھے تو وہ لوگ جو کسی خماری کے حکم میں بے تاب ہوئے۔ بے تحقیق، بے تمیز اور بے قانون اندھی سدھ بدھ کے ساتھ پاکستان کے مسلمان شہریوں کو مارنے پر تلے ہوئے تھے۔ مرنے والوں نے شور مچایا نہ دست بدست لڑائی کی اور بقول نادان بیان بازوں کے یہ دہشت گرد تھے۔ اگر ان میں ایک بھی دہشت گرد تھا تو وہ جیکٹ کی کل کھول کر خود ہی مر جاتا، بے نام ہو جاتا ہے۔ کہ تحقیق نہ تفتیش بس اوپر سے نیچے تک ایک ہی رٹ دہشت گرد تھے۔ جو مزاج یار میں خوشی ہے، وہی رسم دوراں ہے۔ اگر مزاج یار برہم ہے توخاص و عام پر ٹکٹکی لگانے کا اہتمام ہے۔ مگر بدقسمتی تو یہ ہے کہ قانون کی وزارت پر براجمان اپنی ہی وزارت کو بھی منہ چڑانے سے باز نہیں رہتے۔ پرانی عادت ہے بھیک کے اقتدار میں رہ کر اپنی بری عادات کو تسکین دینے کی۔ ایک آمر مشرف کا دور تھا، اسے کچھ ایسے لوگوں کی ضرورت تھی جو تربیت یافتہ قزاقوں کے آثار کو ختم کر سکیں۔ خیراتی اقتدار میں ایسے ایسے پردھان میسر آئے کہ رہے نام اللہ کا۔ پنجاب میں ایک وزیر قانون تھے۔ کبھی قانون کو جانچنے اور قانون کو سمجھنے کا انہیں موقع ہی میسر نہ آیا تھا۔ بس وزیر قانون تھے۔ قلمدان کسی کے نام تھا، قلم کسی کے ہاتھ میں تھا۔ بس اقتدار کی چوپال میں چودھری صاحب تھے۔ یہی راجے تھے، یہی گامے تھے۔ اب بھی یہی کچھ ہے۔ یار لوگ رات بھر اپنی تمنائوں کے شبستان کو رونق دیئے رکھتے ہیں، انگور ہے یا بنت انگور ہے۔ موسم اچھا ہے۔ شربت سرور سے ہلکا سا خمار بھی میسر آ جائے تو دھن کی تازگی ہے۔ سوال برقرار ہے کہ قانون تو ملک کے ہر شہری کی حیثیت کا تعین کرتا ہے۔ بے گناہ، بے قصور، خاتون مسافر کو بے جواز گولیوں کی باڑ کے آگے رکھ موت کی نیند کیوں سلایا۔ بے خطا، بے قصور قوم کی بیٹی کو برسرعام ان اندھوں نے کیوں شہید کیا؟ وزیر قانون کہتے ہیں کہ جو ہوا درست ہوا۔ کوئی سادہ سا شہری بھی یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ یہ پولیس افسران پھر فارغ کیوں کئے گئے اور کمال ہے حکومتی نوکرشاہی اور خیرات شاہی وزرا ایک دوسرے کی باتوں میں چھپنے کی کوشش کرتے ہوئے بے وزن بیانات دے رہے ہیں۔ آمر مشرف کی تربیت یافتہ ٹیم موجودہ حکمرانوں کی صفوں میں اگلے مقام پر ہے۔ ان کے اندر کا کھوکھلا پن پر پالیسی اور ہر بیان سے باہر آتا ہے۔ سیاسی ماحول کو سورج کی تمازت سے گرما رہے ہیں۔ کسی کو چٹکی لے، کسی کو گھونسہ دکھایا اور کسی کو جلادانہ نظروں سے دیکھا۔ دوسری جانب بھی قوم کش مداری تیور بدل کر پاکستان کو کوستے ہیں۔ کہیں ذرا سا کام سنورتا ہے تو یہ دھینگا مشتی پر اتر آتے ہیں۔ روز کا نعرہ کہ ہم چوروں کو نہیں چھوڑیں گے۔ جب اپنی جان کو دھڑکا لگا ہے تو نیب زدہ پرانے قزاقوں کو خزانے کی راہداری پر ڈنڈا دے کر بٹھاتے ہیں۔ اب کئی سانحات مسلسل گزر رہے ہیں۔ پنجاب حکومت کی بے تدبیری تھی کہ پتنگ کی ڈور سے کتنی معصوم بے خطا جانوں کو ضائع کیا۔ فی الحال پتنگ بازی کو بطور سرکاری تہوار نہ منانے کا فیصلہ ہے۔ وہ بھی عدالت کا خوف تھا۔ راقم مسلسل لکھ رہا ہے کہ اس ناجائز اور نادرست من مانی ثقافت کو دفن کردیا جائے۔ لوگ ہوتے ہیں لیکن پرنالہ وہیں ہے کہ وزیر بلدیات نے بیان دیا ہے کہ ڈور اور پتنگ کے نظام کو رجسٹر کیا جائے گا۔ یہ ہے موت کے پروانے کو قانون کے لفافے میں لپیٹ کر برسرعام کرنے کا پروگرام۔ جناب عثمان بزدار صاحب پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں۔ گلگت بلتستان کے گورنر سے فرماتے ہیں کہ گلگت بلتستان کی تعمیروترقی میں کردار ادا کریں گے۔ خاموش طبع وزیراعلیٰ اپنے صوبے کی طرف مکمل توجہ فرمائیں تو شاہراہوں پر قتل عام رک جائے گا۔ پولیس کی اصلاح فرمائیں۔ وزراء کے بیانات کی طرف دھیان دیں کہ بزدار صاحب خود تو محتاط ہیں، تول تول کے پوچھ پوچھ کربولتے ہیں۔ مگر جناب کے دائرہ اختیار میں وزرا نجانے کس کی مرضی سے بولتے ہیں۔ پنجاب کے ذمہ دار وزراء با اصرار بیان دے رہے ہیں کہ ساہیوال کی شاہراہ پر درست کارروائی ہوئی ہے۔ قتل کے حامی لوگوں کو قانون کے کس خانہ جرم میں رکھا جائے؟