فاتح سومنات سلطان محمود غزنوی کے دربار میں ایک شخص عرض گزار ہوا کہ وہ اپنی سنگین نوعیت کی شکائت سرعام بیان نہیں کر سکتا‘ تخلیہ درکار ہے‘ سلطان نے یہ سن کر دربار برخاست کیا اور سائل سے کہاکہ وہ اپنی شکائت بلا کم و کاست بیان کرے۔ سائل بولا حضور!ایک عرصے سے آپ کا بھائی مسلّح ہو کر میرے گھر آتا اور مجھے مار پیٹ کر باہر نکال دیتا ہے‘ میرے گھر سے چلنے کے بعد میری پاکدامن اہلیہ سے زبردستی کرتا اور دھمکی دے کر چلا جاتا ہے کسی سے میری شکائت کی تو جینا حرام کر دوں گا‘ظالمانہ دھمکیوں کے باوجود میں نے ہمت کی‘ مختلف جگہوں پر شکائت لے کر گیا مگر آپ کے بھانجے کے ڈر سے مجھ غریب کی فریاد کوئی سنتا نہیں‘ کہیں سے انصاف نہ ملنے پر آج آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں‘آپ کی عدل پروری‘ فریاد رسی اور رعایا سے شفقت پروری پر بھروسہ کر کے میں نے حال دل بیان کیا‘ آپ نے میرے حال پر رحم اور انصاف کیا تو بہتر ورنہ روز قیامت اس معاملے کو منصف حقیقی کے روبرو پیش کر کے عدل کا طلبگار ہوں گا۔ سلطان یہ سن کر آبدیدہ ہوئے اور بولے ’’ بندۂ خدا تم سب سے پہلے میرے پاس کیوں نہ آئے؟ اب ناحق ظلم کیوں برداشت کیا؟‘‘ سائل بولا حضور!میں کافی عرصہ سے کوشاں تھا مگر دربانوں اور چوبداروں نے مجھے یہاں پہنچنے نہ دیا‘ آج بھی مشکلوں سے یہاں پہنچا ہوں۔ سلطان نے سائل کو تسلی دی اور تاکید کی کہ اب جب بھی وہ شخص تمہارے گھر آئے مجھے اطلاع کر دینا میں مجرم کو ایسی عبرت ناک سزا دوں گا کہ آئندہ کسی دوسرے کو ایسی جرأت نہ ہو گی‘ سائل نے عرض کی حضور !مجھ غریب کو دوبارہ کون یہاں آنے دے گا‘ میری یہ مجال کہاں کہ میں جب چاہوں بلا مزاحمت خدمت عالی میں حاضر ہو کر عرض مدعا کر سکوں‘ سلطان نے دربانوں کو بلا کر حکم دیا کہ یہ شخص صبح‘ دوپہر‘ شام‘ رات کے پچھلے پہر جب آئے فوراً مجھے ملایا جائے ‘ملاقات کے بعد دو راتیں گزر گئیں سائل نہ آیا‘ سلطان کو انتظار ہی رہا تیسری رات سائل دوڑتا ہوا شاہی محل میں پہنچا اور بتایا کہ وہ ظالم شخص اس وقت میرے گھر پر موجود ہے سلطان نے فوراً سواری نکالی سائل کو ساتھ لیا اور جائے واردات پر پہنچ گئے‘ سلطان نے کمرے میں پہنچ کر فوراً شمع گل کی اور خنجر نکال کر اس بدکردار کا سر تن سے جدا کر دیا۔مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بعد سلطان نے شمع دوبارہ روشن کرنے کے لئے کہا اور جب ان کی نظر مقتول کے چہرے پر پڑی تو بے ساختہ زبان سے ’’الحمد للہ‘‘ نکلا‘ سلطان نے سائل سے پانی طلب کیا اور پورا پیالہ غٹاغٹ پی گئے‘ پانی پینے کے بعد سلطان نے سائل سے کہا کہ اب وہ اطمینان سے زندگی بسر کرے دوبارہ انشاء اللہ کبھی تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائے گا‘ میری لاعلمی کی وجہ سے تمہیں اور تمہاری عفت مآب اہلیہ کو جو اذیت برداشت کرنی پڑی اس پر میں معافی کا طلب گار ہوں مجھے معاف کر دینا‘ یہ کہہ کر سلطان نے رخصت چاہی‘ سائل نے سلطان کا شکریہ ادا کیا کہ اپنی قرابت داری کا لحاظ کئے بغیر اس نے ایک غریب بے بس اور مظلوم کی داد رسی کی‘ ساتھ ہی پوچھا کہ قتل سے قبل شمع بجھانے‘ روشنی ہونے پر الحمد للہ کہنے اور پانی پینے کا کیا مقصد تھا‘ سلطان نے ٹالنا چاہا مگر سائل اڑا رہا چنانچہ زیادہ اصرار پر سلطان نے بتایا کہ شمع گل کرانے کا مقصد یہ تھا کہ کہیں مجرم کا چہرہ دیکھ کر مبادا بہن کی محبت مجھے سزا دینے سے باز رکھے‘ الحمدللہ کہنے کا سبب یہ تھا کہ مقتول میرا بھانجا تو درکنار دور پرے کا رشتہ دار بھی نہ تھا‘ الحمدللہ میرے عزیز و اقارب میں سے کوئی ایسے قبیح جرائم میں ملوث میرے لئے باعث ندامت نہیں اور پانی میں نے اس لئے پیا کہ جب تین روز قبل تم نے شکائت کی تو میں نے اس وقت تک کھانا پینا موقوف کیا جب تک اس ظالم کو سزا نہ دے لوں جو میری رعایا کے لیے باعث آزار ہے۔ یہ اس مطلق العنان بادشاہ کا واقعہ ہے جو اپنے اثرورسوخ اور عرصہ اقتدار کے اعتبار سے دنیا کے چار پانچ عالمی شہرت کے حکمرانوں میں شامل ہے‘ سکندر یونانی‘ چنگیز خان اور امیر تیمور کا شمار انہی حکمرانوں میں ہوتاہے‘ اکیلا محمود غزنوی ہی نہیں دیگر کئی مسلم حکمرانوں کے واقعات بھی تاریخ کا حصہ ہیں جن کی عدل گستری اور منصف مزاجی ضرب المثل ہے ترکی کے آخری عثمانی حکمران سلطان عبدالحمید نے عدل و انصاف کے تقاضوں کے تحت اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو سنگین سزائیں دیں جن میں جلا وطنی تک شامل تھی‘ قیام پاکستان کی جدوجہد کرنے والے قائدین اور جان و مال ‘ عزت و آبرو کی قربانی دینے والے خاک نشینوں نے بھی ایک ایسی ریاست کا خواب دیکھا تھا جہاں قانون کی حکمرانی ہو گی اور عدل و انصاف کی فراوانی‘ تمیز بندہ و آقا ہو گی نہ کمزور و طاقتور میں کسی قسم کی تفریق۔ قائد اعظمؒ نے 11۔اگست 1947ء کی مشہور زمانہ تقریر میں (جس کے ایک جملے سے یار لوگ برصغیر کے مسلم رہنما کو سیکولر ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں)برملا یہ کہا تھا کہ ’’لعنتوں میں سے ایک جو فوری طور پر میرے سامنے آئی ہے وہ اقربا پروری اور احباب نوازی ہے یہ ہمیں ورثے میں ملی اور بہت سی اچھی بُری چیزوں کے ساتھ یہ لعنت بھی ہمارے حصے میں آئی اس برائی کو سختی سے کچل دینا چاہیے یہ واضح کر دوں کہ میں نہ احباب پروری اور اقربا پروری کو برداشت کروں گا نہ کسی اثرورسوخ کو جو مجھ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی؟میں ہمیشہ عدل و انصاف کو مشعل راہ بنائوں گا اور جیسا کہ سیاسی زبان میں کہا جاتا ہے تعصب یا بدنیتی دوسرے لفظوں میں جانبداری اور اقربا پروری کو راہ نہ پانے دوں گا‘ عدل اور مکمل غیر جانبداری میرے رہنما اُصول ہوں گے‘‘ عام شہری نے مطلق العنان سے شکائت کی تو محمود غزنوی نے یہ نہیں کہا کہ تم میرے بھانجے پر الزام لگا کر بنیادی طور پر مجھے اور میرے خاندان کو بدنام کرنا چاہتے ہو‘ شکائت سنی اور انصاف کرنے چل کھڑے ہوئے‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مگر کسی حکمران کے عزیز و اقارب‘ دوست احباب اور اہالی موالی دونوں ہاتھوں سے قومی وسائل کو لوٹ رہے ہوں یا موصوف کرپشن کے حمام میں الف ننگے ہوں کوئی باز پرس نہیں کر سکتا کہ اس سے جمہوریت بدنام ہوتی ہے اور سسٹم کمزور۔عادل و منصف رنگے ہاتھوں پکڑا جائے تو آئین میں طے شدہ اصولوں کے تحت جوڈیشل کونسل کارروائی کی مجاز ہے مگر افتخار چودھری سے لے کر قاضی فائز عیسیٰ کیس تک نظریہ آیا کہ جوڈیشل کونسل باز پرس کر سکتی ہے نہ ریاست کے تفتیشی ادارے تحقیقات اور نہ ایف بی آر کو اہل خانہ سے پوچھ گچھ کا حق‘ یہی حال دوسرے طاقتور اور بارسوخ طبقات کا ہے جو آہستہ آہستہ احتساب سے بالاتر اور سزا و جزا کے دائرے سے ماورا مقدس گائے کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ پاکستان کا سب سے طاقتور ادارہ فوج ہے جسے میاں نواز شریف اور ان کے ہمنوا ریاست سے بالاتر قرار دے کر اپنی اور اپنے سیاسی طبقے کی مظلومیت کا رونا روتے ہیں‘ کسی نہ کسی حد تک یہ سچ بھی ہے مگر موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں سزا و جزا کے داخلی نظام کے تحت چار لیفٹیننٹ جنرل‘ چھ میجر جنرل احتساب کی زد میں آئے‘ ایک جرنیل کو عمر قید کی سزا ملی اور ایک بریگیڈیئر کو سزائے موت مگر حکمران اور عدل و انصاف کی مسند پر براجمان ہر ایک کے بارے میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ وہ دودھ کا دھلا ہے اور ہر خطا سے پاک ۔اس دھڑے بندی‘ طبقہ پروری اور دوست نوازی کے طفیل پاکستان میں مقدس گائیوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے قانون صرف خاک نشینوں کی حق تلفی اور کمزوروں کی آواز دبانے کا ہتھیار ہے اور ناانصافی قوی کلچر ‘عہد جدید کے حکمران اور ریاست کے دوسرے اہم و طاقتور ستون دوست احباب ‘ پیٹی بھائیوں کو بھی ہر بشری کمزوری اور خطا سے مبّرا اور احتساب سے بالاتر سمجھتے اور ان کی بداعمالیوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں سوال اثاثوں کا کرو تو جواب پرائیویسی کا آتا ہے۔ جس اقربا پروری‘ احباب نوازی اور طبقاتی تعصب سے قائد اعظم نے پناہ مانگی تھی وہ پاکستان میں سکّہ رائج الوقت ہے۔ ؎ یہ کس دور میں مجھ کو جینا پڑا ہے کہ زخموں کو کانٹوں سے سینا پڑا ہے