جنگیں شطرنج کی طرح ہوتی ہیں۔ اس میں اپنی موو سے ظاہر کچھ کیا جاتا ہے اور ہدف کچھ اور ہوتا ہے۔ اس میں طیاروں کی پہلی فارمیشن لاہور کی جانب بڑھتی ہے تو دوسری بہاولپور کی جانب مگر ٹارگٹ بالاکوٹ کے قریب ہوتا ہے۔ جس طرح 26 فروری کی بھارتی موو میں ہدف ان کا بالاکوٹ کے قریب تھا مگر تاثر یہ دیا گیا جیسے لاہور یا بہاولپور کو نشانہ بنانے کا ارادہ ہے اسی طرح اس پورے ایونٹ کا ہدف بھی کچھ اور تھا۔ بھارت اور اس کے درپردہ اتحادی تو اپنے ہدف کو چھپائے رکھنے پر مجبور تھے جبکہ ہم نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنے بھرپور بیانیے کے ذریعے یہ تاثر عام کردیا کہ یہ سب "موذی جی" الیکشن جیتنے کے لئے کر رہے ہیں۔ یہ سائیکولاجیکل وارفیئر کے محاذ پر ہماری شاندار موو تھی۔ خود بھارتی اپوزیشن جماعتوں نے بھی شور بلند کردیا کہ مودی الیکشن میں کامیابی کے لئے اپنے فوجی جوانوں کو مروا رہا ہے۔ یہ حالیہ کشیدگی میں ہماری ایسی زبردست کامیابی ہے جس کی جانب فی الحال کسی کی توجہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب الیکشن جیتنے کے لئے نہ تھا تو پھر کس چیز کے لئے تھا ؟ اس ساری کشیدگی میں وہ اصل ہدف اور مقصد کیا تھا جو بھارت کے پیش نظر تھا ؟ حال ہی میں لکھے گئے کئی کالمز میں عرض کرچکا ہوں کہ اس خطے میں ان دنوں تاریخ کا ایک اہم باب رقم ہورہا ہے۔ وہ باب جس کا خلاصہ یہ ہوگا کہ ہزیمت خوردہ امریکہ افغانستان سے رخصت ہوگا اور کابل میں وہ طالبان برسر اقتدار ہوں گے جنہیں ان کی تخلیق کے دن سے امریکہ دہشت گرد کہتا آیا ہے۔ اس مقصد کے لئے دوحہ میں ہونے والے مذاکرات بجائے خود امریکہ کے صدیوں سے چلی آرہی اس تاریخی پالیسی کی شکست ہیں کہ "امریکہ کبھی بھی دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں کرتا" یہ اصول ڈیڑھ دو صدی کامیابی سے چلا مگر آج افغان طالبان اسے ساری دنیا کے سامنے خاک میں ملا چکے۔ امریکہ اپنی تاریخ میں پہلی بار نہ صرف ان سے مذاکرات کر رہا ہے جنہیں اس نے پوری دنیا سے دہشت گرد منوایا تھا بلکہ بہت جلد ان مذاکرات کے ذریعے ان سے "امن معاہدہ" بھی کرنے کو ہے۔ اب یہاں سمجھنا بہت ضروری ہے کہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں "کنٹرولڈ ڈیموکریسی" کے فیلیئر کا نتیجہ ہیں۔ امریکی اسٹیبلیشمنٹ خواب ہیلری کلنٹن کی فتح کے دیکھ رہی تھی اور تعبیر ظاہر ہوگئی ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت۔ ہم پچھلے چند سالوں میں صدر ٹرمپ اور امریکی اسٹیبلیشمنٹ کی کشمکش دیکھ چکے۔ اس کشمکش کے نتیجے میں ہم یہ بھی دیکھ چکے صدر ٹرمپ مشرق وسطی کے لئے امریکی اسٹیبلیشمنٹ کے اس پلان کا بیڑہ غرق کرچکے جس کی بنیاد باراک اوباما کے دور میں عرب سپرنگ اور داعش کی مدد سے رکھی گئی تھی۔ اس پلان کے مطابق کچھ مسلمان ممالک کو امریکہ کے قریب لانا اورکچھ مسلمان ممالک کو عتاب سے دوچار کرنا تھا۔ صدر ٹرمپ اس پلان کو خاک میں ملا کر ایران کو ایک بار پھر امریکہ کا ہدف بنا چکے۔ ٹرمپ کی اس پالیسی کا خطے کے ممالک کو یہ فائدہ ہو رہا ہے کہ یہ ممالک تیزی سے ایران کو خطے کے ابھرتے مشرقی بلاک کی جانب لانے کی کوششوں میں ہیں۔ اس سے جہاں ایران کی تنہائی ختم ہوتی ہے وہیں امریکہ کے خلاف اسے تحفظ بھی میسر آجاتا ہے۔ مشرق وسطی کے بعد اب صدر ٹرمپ افغانستان میں بھی امریکی اسٹیبلیشمنٹ کی ناک رگڑوا رہے ہیں۔ طالبان سے ہونے والے مذاکرات پر امریکی اسٹیبلیشمنٹ ہرگز خوش نہیں، لیکن اس کی کمبختی یہ آئی ہوئی ہے کہ جس ہزیمت کا امریکی حکام برملا اعتراف نہیں کیا کرتے تھے بلکہ اسے چھپاتے تھے وہ صدر ٹرمپ برملا بیان کر رہے ہیں اور مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے فوجی ایک لاحاصل جنگ لڑتے ہوئے مر بھی رہے ہیں اور معذور بھی ہورہے ہیں، لہٰذا میں بیچاروں کو گھر لانا چاہتا ہوں۔ ٹرمپ کے بیانیے کو امریکی عوام میں بھرپور پذیرائی حاصل ہے۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے برسر اقتدار آتے ہی ان کے مخالفین یہ عزم ظاہر کرچکے تھے کہ انہیں مواخذے سے گزار کر جلد وائٹ ہاؤس سے نکال دیا جائے گا۔ جبکہ عالمی سیاست میں اس خدشے کا بھی بین السطور اظہار ہوا تھا کہ شاید ایک بار پھر کوئی امریکی صدر "حادثے" کا شکار ہونے جا رہا ہے۔ لیکن امریکہ کی داخلی صورتحال شاید اس کی اجازت نہیں دیتی۔ سو واحد آپشن یہ ہے کہ ان کی مدت پوری ہونے کا انتظار کیا جائے۔ پاکستان اور افغان طالبان جانتے ہیں کہ ٹرمپ کی یہ باقی ماندہ مدت ہی وہ کل مہلت ہے جس میں امریکہ کو افغانستان سے چلتا کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا فوری نہ کیا گیا تو ٹرمپ دوسری ٹرم نہیں جیت سکے گا اور آنے والا صدر افغانستان میں اسٹیبلیشمنٹ کی ہی لائن لے گا۔ مگر مہلت کی اس مختصر سی مدت پر صرف ہماری ہی نہیں کسی اور کی بھی نظر ہے اور وہ اس کا تدارک کرنے میں مشغول ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ افغانستان سے صرف امریکہ کا انخلا ہی نہیں ہونے جا رہا بلکہ بھارت کی تمام انویسٹمنٹ اور ہمیں مغربی سرحد کے راستے دہشت گردی کا نشانہ بنائے رکھنے کی اس حکمت عملی بھی دفن ہونے جا رہی ہے۔ ایسے میں امریکی اسٹیبلیشمنٹ، بھارت اور موجودہ افغان حکومت کی اولین کوشش یہ ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے مذاکرات کسی طرح ناکام کئے جائیں یا انہیں تعطل کا شکار کرکے امن معاہدے تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ اور صدر ٹرمپ کی باقی ماندہ مدت کا فائدہ اٹھانے سے پاکستان اور افغان طالبان کو روکا جائے۔ یہ مقصد کسی پاک بھارت جنگ سے ہی یقینی طور پر حاصل ہوسکتا ہے۔ یوں اس پوری صورتحال میں حالیہ کشیدگی کے دوران مذکورہ ٹرائیکا کا ہدف یہ تھا کہ جنگ چھڑ جائے۔ جبکہ ہماری ضرورت یہ تھی کہ کچھ بھی ہوجائے مگر جنگ کسی صورت نہ چھڑے ورنہ یہ ٹرائیکا افغانستان کے امن مذاکرات کو ناکام کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ الحمدللہ پاکستان اپنے مقصد میں اب تک کامیاب ہے۔ جبکہ بھارت مقبوضہ کشمیر اور امریکہ کا سازشی ٹولہ ہلمند سے تابوت سمیٹ رہا ہے۔ حربی شعور رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ہلمند میں امریکی فوجی اڈے پر طالبان کا کرارا حملہ خطے کی اس حالیہ صورتحال سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ دوحہ میں مذاکرات جاری ہیں اور صدر ٹرمپ اب ہلمند میں ہونے والے نقصان کے سبب مزید تیزی سے امن معاہدے کی جانب پیش رفت کرتے نظر آئیں گے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ اور مشیر قومی سلامتی اس کشیدگی کے دوران بھارت کے حامی نظر آئے جبکہ صدر ٹرمپ نے امن کے حوالے سے ویتنام میں جو بیان جاری کیا اس سے بھارت تلملا اٹھا۔ اس بیان کے ذریعے صدر ٹرمپ نے جنگ کے امکان پر برفیلا پانی بہا کر بھارت اور اس کے درپردہ پارٹنرز کے عزائم کو ناکام کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔