بلوچستان اسمبلی کے سابق رکن اور محمود خان اچکزئی کی جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما عبدالمجید اچکزئی کی باعزت رہائی پر غالب یاد آئے ؎ حیراں ہوں‘ دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں عبدالمجید اچکزئی نے 2017ء میں دن دیہاڑے کوئٹہ کے جی پی او چوک پر اپنی مہنگی گاڑی ٹریفک سارجنٹ پر چڑھا دی‘ جو بے چارہ موقع پر جاں بحق ہو گیا‘ محمود خان اچکزئی کے قریبی عزیز اور سیاسی ساتھی عبدالمجید اچکزئی نے موقف اختیار کیا کہ گاڑی ان کا ڈرائیور چلا رہا تھا مگر عینی شاہدوں کے بیانات اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے ثابت ہو اکہ گاڑی طاقت کے نشے میں دھت رکن اسمبلی خود چلا رہا تھا اور وہی قانون کے رکھوالے کا قاتل ہے‘ گرفتاری ہوئی‘ صلح کے لئے سلسلہ جنبانی ہوا‘انسانی حقوق کے چمپئن نامور وکلا نے مقتول کے بجائے قاتل کا مقدمہ لڑا اور ایک طاقتور شخص اندھے قانون‘بہرے نظام عدل اور گونگے معاشرے کی آنکھوں میں دھول جھونک کر باعزت بری ہو گیا۔ چند سال پیشتر کراچی میں ایک امیر زادے شاہ رخ جتوئی نے اپنے کھلنڈرے دوستوں سے مل کر نوجوان شاہزیب خان کو اس بنا پر قتل کر دیا کہ مقتول نے عیاش نوجوانوں کو اپنی سگی بہن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے منع کیا تھا‘ میڈیا اور سول سوسائٹی نے صدائے احتجاج بلند کی‘ ملزم گرفتار ہوئے اور طاقتور وڈیروں نے دیت دے کر شاہ زیب کے خاندان کو صلح صفائی پر مجبور کر دیا مگر سول سوسائٹی نے شور مچا دیا کہ دیت محض بہانہ ہے اصلاً مقتول کے خاندان پر دبائو ڈال کر ملزموں کی بریت کا اہتمام کیا گیا۔ چیف جسٹس افتخار چودھری نے نوٹس لیا‘ سندھ ہائی کورٹ کو ازسر نو سماعت کی ہدائت کی اور بالآخر شاہ رخ جتوئی سزائے موت کا حقدار ٹھہرا‘باقی ساتھیوں کو عمر قید کی سزا ملی‘ اگرچہ بعدازاں سزائے موت عمر قید میں تبدیل ہو گئی مگر معاشرتی بیداری نے قاتلوں کی باعزت بریت کا راستہ روک دیا‘ شاہ زیب کے برعکس چھوٹے چھوٹے بچوں کا باپ ٹریفک سارجنٹ حاجی عطاء اللہ محکمہ پولیس کا ملازم اور ریاست کا نمائندہ تھا جسے فرائض کی ادائیگی کے دوران گاڑی سے کچلا گیا مگر مقتول کی حرماں نصیب بیوہ اور بے قصور بچوں کی داد رسی کے لئے ریاست نے انگڑائی لی‘ نہ حکومت بلوچستان کو شرم آئی اور نہ میڈیا و سول سوسائٹی پر شور برپا ہوا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور عینی شاہدین کی موجودگی میں ملزم عدم ثبوت کی بنا پر بری کیسے ہو گیا اور عطاء اللہ کا اپنا محکمہ ماڈل کورٹ کے سامنے ثبوت پیش کیوں نہ کر سکا۔ یہی واقعہ بلوچستان کے کسی سوشل ایکٹوسٹ‘ پاکستان کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کی مرتکب تنظیموں کے کسی سرکش کارکن یا فراری کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو اچکزئی کے وکیل کامران مرتضیٰ جیسے قانون دان‘ بار کونسلیں و ایسوسی ایشنیں‘ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور قانون کی حکمرانی کا راگ الاپنے والے میڈیائی دانشور آسمان سر پر اٹھا لیتے‘ مقتول کی بیوہ‘ بچوں اور اہل خانہ کا جینا حرام کر دیا جاتا کہ انہوں نے قاتل کے دبائومیں آ کر صلح کیوں کی اور ملزم کو بری کرنے والے ماڈل کورٹ کے جج سے وہی سلوک ہوتا جو میاں نواز شریف اور مریم نواز نے اپنے خلاف فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے ججوں سے کیا‘ مگر چونکہ یہاں مقتول ریاست کا ملازم اور عوام کی جان و مال کے محافظ ادارے کا باوردی کارکن ہے اور ملزم سیاستدان‘ عوامی نمائندہ‘ محمود خان اچکزئی کا رشتے دار اور دولت مند و طاقتور وڈیرہ ہے اس لئے بریت کے فیصلے پر کسی اینکر اور دانشور کی رگ انسانی ہمدردی پھڑکی نہ انسانی حقوق کی کسی تنظیم نے پریس ریلیز جاری کی اور نہ کسی قانون دان کا بیان نظر سے گزرا‘ سب منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ شیریں مزاری کی زبان پر آبلے پڑ گئے ہیں اور انہیں بے ضرر سی ٹویٹ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی‘ بلا شبہ عدالتیں گواہوں کے بیانات اور شواہد کی روشنی میں فیصلہ کرتی ہیں اور استغاثہ اگر مقدمہ میں دلچسپی نہ لے تو عدم ثبوت و شک کا پورا فائدہ ملزم کو دیتی ہیں لیکن مقتول عطاء اللہ کے اپنے محکمہ پولیس نے اپنے کارکن کے قاتل کو سزا دلانے میں دلچسپی کیوں نہ لی؟قاتل سے پیسہ کھایا یا سیاسی دبائو کام آیا‘ ریاست ایک وڈیرے کی طاقت ودہشت کے سامنے سرنگوں کیوں ہو گئی؟۔محمود خان اچکزئی پورے پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے علمبردار ہیں مگر اپنا قریبی ساتھی‘قانون کی زد میں آیا تو موصوف نے گونگا شیطان بننے کو ترجیح دی ‘قانون کی حکمرانی کا آموختہ بھول گئے کہ یہ صرف پاکستان اور فوج کے خلاف ہی قابل استعمال ہے۔ ریاست ‘ حکومت‘ محکمہ پولیس اور ماتحت عدالت‘ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے علمبردار؟آدمی کس کس سے گلہ کرے ؎ قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر عمران خان ریاست مدینہ کے علمبردار ہیں اور پاکستان میں امیر و غریب‘ طاقتور و کمزور سب کو قانون کے سامنے یکساں حیثیت دلانے کے لئے کوشاں‘ کیا مقتول عطاء اللہ کی مظلوم بیوہ اور معصوم بچوں کو انصاف دلانے کے لئے اس ناانصافی کا نوٹس لیں گے جو کوئٹہ میں روا رکھی گئی اور جس کو معروف قانون دانوں نے ملزم کے خلاف تصویریں کھنچوا کر خوش آمدید کہا‘یہ صرف ایک غریب اور کمزور خاندان کی داد رسی نہیں ریاست کی عزت اور وقار کا معاملہ ہے کہ عطاء اللہ اس کا نمائندہ اور قانون کا رکھوا تھا‘ چیف جسٹس آف پاکستان بھی اپنے پیشرو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی طرح اس مکروہ واقعہ کا ازخود نوٹس لے کر مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھ سکتے ہیں کہ مظلوم خاندان بالخصوص معصوم بچوں کی آہیں عرش بریں تک پہنچ گئیں تو خمیازہ ہر ایک کو بھگتنا ہو گا‘ دیت اور باہمی صلح صفائی کا قانون معاشرے میں تنازعات کو روکنے کے لئے وضع ہوا‘ قانون اور ریاست کی مٹی پلید کرنے اور طاقتوروں کو قتل و غارت گری کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے لئے نہیں کہ ہر دولت مند اس کا فائدہ اٹھا کر چوک چوراہے پر عام شہریوں اور پولیس کے اہلکاروں کی جان لیتا پھرے۔ عبدالمجید اچکزئی کی بریت سے زیادہ شرمناک بات معاشرے کی مجرمانہ خاموشی اور میڈیا‘ قانون دانوں‘ انسانی حقوق کی تنظیموں اور صبح و شام قانون کی حکمرانی کا ورد کرنے والے دانشوروں کی بے حسی و سنگدلی ہے ؎ حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر