مشہور زمانہ لغت چیمبرز انگلش ڈکشنری میں الفاظ لبرل کے معانی مندرجہ ذیل ہیں: Befitting: A free man or a gentleman Directed towards the cultivation of the mind for its own sake. Generous, Noble-mined, Broad-minded, Not bound by authority or traditional orthodoxy, Looking to the general or broad sense rather than the literal, Candid, Free from restraint. اب آپ ان الفاظ کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: ایک آزاد اور شریف النفس انسان کے شایان شان۔ انسانی ذہن کی نشوونما میں مددگار(چیز‘ ماحول‘ علم‘ تربیت‘ رویہ‘ سوچ وغیرہ) فراخدلی‘ سخی‘ اعلیٰ آہنگ رکھنے والا۔ (آمرانہ) اقتدار اور روایتی گھسے پٹے خیالات اور رسومات سے بیزار۔ اشیاء کے لغوی مفہوم تک محدود رہنے کے بجائے ان کے اصل معانی کی تہہ تک پہنچنے والا۔ صاف صاف بات کرنے والا۔ بے جا پابندیوں اور جبر سے آزاد۔ مجھے لفظ لبرل کے معانی پر بات کرنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ چند روز پیشتر میری نظر سے مولانا فضل الرحمن کا ایک بیان گزرا جس میں موصوف نے فرمایا کہ ہم پاکستان کوکبھی لبرل نہیں بننے دیں گے۔ بعدازاں ان کے ایک ساتھی مولانا نے بھی یہ بات دہرائی۔ اس کالم کو لکھنے کا یہ مقصد قطعاً نہیں کہ میں مولانا فضل الرحمن اوران جیسی سوچ کے حامل دوسرے افراد کولفظ لبرل کا صحیح مفہوم بتائوں۔ ایسی لاحاصل کوشش کرنا سراسر حماقت ہے۔ لفظ لبرل کا جو مفہوم ان کے ذہن میں ہے وہ اٹل اور حرف آخر ہے۔ کوئی دلیل یا بحث ان کو اور ان کے نظریات کوبدل نہیں سکتی۔ البتہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ ان کے خیالات سے پھیلنے والی گمراہی اور کنفیوژن کو روکنے کی کوشش کی جائے۔ نیز عوام الناس کو ان نام نہاد رہنمائوں کے اصل عزائم سے باخبر کیا جائے تاکہ وہ تباہی کے دہانے پر پہنچنے سے پہلے ہی سنبھل جائیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر مولوی فضل الرحمن لبرل پاکستان نہیں چاہتے تو کس قسم کا پاکستان چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے وہ نان لبرل یعنی ILLIBERAL پاکستان کے متمنی ہیں۔ یہ پاکستان کیسا ہوگا۔ لبرل تو ہرگز نہیں ہوگا۔ مولانا کا نقظہ نظر سمجھنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ لبرل کا متضاد لفظ یا الفاظ کیا ہیں۔ تو آئیں‘ دیکھتے ہیں۔ کتاب کا نام: Oxford Dictionary of Synonyms and Antonyms. اس کتاب میں صفحہ 195 پر لبرل کے متضاد معانی یوں لکھے ہیں: Close; Mean; Miserly; Niggardly; Selfish; Stingy; Ungenerous; Narow-minded.(کم نظر‘ تنگ دل۔کنجوس،شوخ،لالچی) تو صاحب یہ ہے پاکستان اور پاکستانی عوام کا مجوزہ نقشہ جو مولانا کے ذہن میں ہے۔ گویا مولانا صاحب پاکستان کے عوام میں یہ سب خوبیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگلا سوال یہ ہے کہ مولانا اور اس قبیل کے لوگوں کولبرل پاکستان سے اتنی نفرت کیوں؟ یہ سوال ایک مفصل جواب کا متقاضی ہے۔ اس جواب میں کئی ایک عوامل کاذکر کرنا پڑے گا۔ میں اس مختصر کالم میں بس ایک دو کا ذکر کر سکوں گا۔ باقی پھر سہی۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا۔ لیکن چند حضرات اس جز کو کل سمجھنے اور سمجھانے پر مصر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملکی اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے ان کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ’’پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لہٰذا اس پر حکومت بھی نیک‘ صالح اور پابند شریعت لوگوں کی ہونی چاہیے چونکہ ہم ہی اس تعریف اور معیار پر پورا اترتے ہیں جبکہ ہمارے علاوہ باقی پاکستانی صرف نام کے مسلمان ہیں‘ لہٰذا اسلام آباد پر حکومت صرف اور صرف ہمارا حق ہے۔ اگر ہمارے راستے میں جمہوریت اور لبرل ازم جیسی رکاوٹیں حائل ہونے کی کوشش کریں گی تو ہم انہیں پائے حقارت سے ٹھکرا دیں گے۔‘‘ آئیے اب یہ دیکھتے ہیں کہ لبرل ازم ان حضرات کے راستے میں کیسے حائل ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ لبرل ذہن کا ووٹر کبھی انہیں ووٹ نہیں دے گا۔ کیونکہ وہ تعلیم یافتہ‘ باشعور‘ اعتدال پسند‘ غیر متعصب اور سوجھ بوجھ رکھنے والا انسان ہوگا جبکہ انہیں تنگ نظر‘ متعصب، کم علم‘ دنیوی علوم سے بے خبر اور بھولے بھالے ووٹروں کی ضرورت ہے جو ان حضرات سے گہری عقیدت کے رشتے میں بندھے ہوں اور آسانی سے جن کی برین واشنگ کی جا سکے۔ عوام کا ایک طبقہ ایسے ہی ووٹرز پر مشتمل ہے لیکن ان کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے مولانا کی پارٹی کو بمشکل چند ایک سیٹیں ملتی ہیں جبکہ اقتدار سے بھرپور لطف اندوز ہونے کے لیے بہت سی سیٹوں کی ضرورت ہے۔ (انتخابات میں دوسری مذہبی جماعتوں کوبھی عوام کی اکثریت شرف پذیرائی نہیں بخشتی) چنانچہ ان حضرات کا اصل میدان عمل اور امید مستقبل‘ وہ ہزاروں مدرسے اور ان میں زیر تعلیم معصوم طالب علم ہیں جنہیں ان مدرسوں نے حفاظتی حصار میں لیا ہوا ہے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ان طالب علموں کو دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیوی علوم بھی پڑھائے جائیں تاکہ وہ باعزت طریقے سے روزی کما سکیں‘ ملک کے مفید‘ ذمہ دار اور باشعور شہری بن سکیں‘ تعصب اور انتہا پسندی کی لعنتوں کے قریب بھی نہ پھینکیں اورانہیں مذہب کے نام پر گمراہ نہ کیا جا سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں کم از کم ایک انٹرنیشنل زبان (مثلاً انگریزی)‘ قومی زبان اردو‘ ریاضی‘ کمپیوٹر‘ سائنس‘ اکنامکس‘ سیاسیات وغیرہ کی تعلیم بھی دی جائے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مدرسوں کے طلبا کو ان جدید علوم سے بالکل محروم رکھا جاتا ہے حالانکہ ان علوم کے بغیر انسان کی شخصیت بالکل نامکمل رہتی ہے اور وہ کسی صورت بھی ایک جدید مملکت کا مفید شہری نہیں بن سکتا۔ ان علوم کا داخلہ مدرسوں میں تقریباً ممنوع ہے۔ اگر حکومت اس سمت میں کوئی کوشش کرے تو یہ لوگ مزاحمت کرتے ہیں کیونکہ ایسا ہوگیا تو ان مدرسوں سے فارغ التحصیل لوگ‘ لبرل ذہن کے باشعور لوگ ہوں گے جو انہیں کبھی ووٹ نہیں دیں گے تو صاحب یہ وجہ ہے کہ پاکستان میں ایسے لوگوں کی ہوس اقتدار پوری ہو گی نہ ہوس زر اور یہ Non-entity بن کر رہ جائیں گے۔ اپنے زیر سایہ یا زیر تسلط لوگوں کو علم و آگہی سے دور رکھنا اور اس قابل نہ بننے دینا کہ وہ باعزت طریقے سے روزگار کمانے کے قابل ہو جائیں‘ انہیں باشعور‘ ذمہ دار اور خودمختار شہری نہ بننے دینا اور مستقل طور پر اپنا زیر نگیں اور محتاج رکھنے کی کوشش کرنا نئی بات نہیں ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ پنجاب اور سندھ کے فیوڈل لارڈز‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے خان اور ملکوں کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ رہا ہے۔ وہ اپنے علاقوں کی ڈویلپمنٹ نہیں ہونے دیتے کہ اس کے نتیجے میں کہیں غریب عوام کی ڈویلپمنٹ نہ ہو جائے۔ یہی mind-set مولانا فضل الرحمن کا بھی ہے لہٰذا وہ کیوں چاہیں گے کہ ان کے مدرسوں میں پڑھنے والے لاکھوں طالبعلم ’’لبرل ازم‘‘ کا شکار ہو کر ان کے شکنجے سے نکل جائیں۔