ایک بامعنے خبر اس ہفتے یہ آئی ہے کہ امریکہ نے سعودی عرب میں اپنی فوج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تعیناتی کی درخواست سعودی عرب نے کی تھی۔ سعودی دفاع مضبوط کرنے کے لیے بھی امریکہ نے کچھ فیصلے کیے ہیں۔ معنے اس خبر کے یہ ہیں کہ حوثی خطرے سے نمٹنے کے لیے چند سال پہلے جو اسلامی فوج بنائی گئی تھی، وہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے یا کم از کم توقعات کے مقررہ نشان سے بہت نیچے رہ گئی ہے۔ چند مہینوں سے سعودی عرب پر حوثی یلغار میں تیز رفتار اضافہ ہو گیا ہے۔ سعودیہ کا جنوبی صوبہ جازان تو کئی ہفتوں سے مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ حوثی ایک طرف ڈرون حملے کرتے ہیں جن سے نمٹنے کے لیے سعودیہ کا ایئرڈیفنس نظام غیر مؤثر نظر آ رہا ہے اور نہ صرف یہ کہ ہوائی ٹریفک درہم برہم ہو گیا ہے بلکہ معمول کی زمینی سرگرمیاں بھی معطل ہوئی ہیں۔ دوسری طرف حوثی چھاپہ ماروں نے سعودی چیک اور بارڈر پوسٹوں پر زمینی حملے بھی تیز کر دیئے ہیں۔ یمن کے اندر کی صورتحال یہ ہے کہ ڈیڑھ دو سال پہلے سعودی حمایت یافتہ فوج نے قدرے تیز رفتار پیش قدمی کرتے ہوئے مقبوضہ یمن کی واحد بڑی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا تھا لیکن اس کے بعد سے اس کی مزید پیش قدمی کے سامنے جیسے کوئی ناقابل تسخیر آہنی رکاوٹ آ گئی۔ جنوب میں صوبہ ضالع(Dale)کا ایک مفید بہ رقبہ حوثیوں نے سعودیہ سے چھین لیا۔ عدن کے تحفظ کے لیے سٹریٹجک صوبے تغرب کا معاملہ بھی جوں کا توں ہے۔ مآرب صوبے میں بھی سعودیوں کے قبضے سے کچھ رقبہ نکل گیا۔ سعودی اور اتحادی یمنی قبائلی دستوں نے برق رفتاری سے حوثیوں کے زیر قبضہ علاقے کا ایک تہائی چھین لیا تھا۔ اسلامی فوج بنتے ہی جیسے ستارے گردش میں آ گئے۔ باوجود کہ سعودی فضائی قوت بہت زبردست ہے، اس کی بری فوج عددی اعتبار سے بھی کمزور ہے اور لڑائی کا تجربہ بھی نہیں۔ اسلامی فوج کا بیشتر حصہ سوڈانی فوجیوں پر مشتمل ہے جنہیں جنگ کا سرے سے کوئی تجربہ ہی نہیں۔ اگرچہ خانہ جنگی کے دوران سوڈانی فوج نصف ملین شہری ہلاک کر چکی ہیں لیکن یہ شہری کتنے تھے۔ بالعموم سوڈانی فوجی کوئی خاص لڑائی لڑے بغیر ہی بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب سابقہ پالیسی بحال کرے یعنی قبائلی فوج پر انحصار بڑھائے تو مثبت پیش رفت ممکن ہے۔ ورنہ یونہی سوڈانی فوجی مفت میں مرتے رہیں گے اور جازان کی طرف سے اس کے دفاع کو خطرات بھی بڑھ جائیں گے۔ امریکی فوجی فی الحال پانچ سو کی تعداد میں آئے ہیں لیکن یہ تعداد بڑھتی رہے گی۔ خیال ہے کہ یہ فوجی بارڈر پر نہیں، اندرون ملک تعینات رہیں گے۔ کیونکہ ’’منحرف‘‘ عناصر کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے شاہی خاندان خود کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے، باوجودیکہ حالیہ ڈیڑھ برس کے دوران میں دسیوں ہزار کے حساب سے گرفتاریاں اور ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ایک طرف سعودی عرب کے جنوب میں جنگ کی آگ بجھنے میں نہیں آ رہی، دوسری طرف شمال مشرق اور شمال مغرب میں بھی میدان جنگ تیار ہو رہے ہیں۔ شمال مشرق ایران ہے اور خلیج فارس جس میں سمندری ٹریفک کے لیے خطرات بڑھ جانے کی وجہ سے امریکہ کسی بھی وقت مداخلت کر سکتا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں ایک ٹینکر لاپتہ ہوا، دو پر حملہ ہوا اور دو پر ایرانی دستوں نے قبضہ کر لیا۔ امریکہ کے جنگی بیڑے علاقے میں پہنچے ہوئے ہیں نیز فوجی دستے بھی پہلے سے موجود ہیں۔ یہاں امریکی مداخلت ہوئی تو ایران اور اس کے اتحادی نجی دستے عراق کی طرف سے سعودی سرزمین کا رخ کر سکتے ہیں۔ اس طرف کے صحرائوں میں سعودی دفاع کے انتظامات کچھ خاص نہیں اور یوں شمال اور جنوب دونوں طرف سے کنگڈم خطروں میں گھر جائے گی۔ ایک تیسرا میدان جنگ بدستور گرم ہے اگرچہ سعودی عرب الگ ہو چکا ہے اور اسے اس میدان سے کوئی براہِ راست خطرہ نہیں ہے۔ یہ شام کا میدان جنگ ہے جہاں کئی فریق ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ مرکزی فریق شامی حکومت ہے۔ دمشق کے شمال میں حمص اور حما کے علاقے چند ماہ سے اچانک بھڑک اٹھے ہیں۔ جنگ کے شدید ترین معرکے میں ایک ہزار شامی فوجی اور لگ بھگ اتنے ہی حریت پسند مارے جا چکے ہیں۔ حریت لیڈروں نے بعض قصبات پر قبضہ کر لیا ہے۔ دمشق کے مغرب میں تخریبی کارروائیاں اور راکٹ حملے بڑھ گئے ہیں۔ ایک دن پہلے ایک اہم تجارتی ٹرین پوری کی پوری بم دھماکوں سے اڑا دی گئی۔ دیرالزور کے صحرا میں داعش کی سرگرمیاں پھر سے بڑھ گئی ہے گھات لگا کر کیے جانے والے حملوں میں سینکڑوں شامی فوجی مارے جا چکے ہیں۔ یہ صحرا داعش کے قبضے سے بالکل واگزار کرا لیا گیا تھا لیکن دو تین ماہ سے وہ پھر سے اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ شمال مشرق میں شام کا ایک تہائی رقبہ کردوں کے قبضے میں ہے جن پر ترک فوج حملے کرتی رہتی ہے۔ ترکی کے زیر قبضہ شامی علاقے، بالخصوص عفرین میں کرد گوریلے ترک فوجوں کے خلاف جوابی حملے کرتے ہیں۔ ان میں بھی درجنوں ہلاکتیں آئے روز ہوتی رہتی ہیں۔ الیبو(حلب) کے اردگرد داعش، القاعدہ اور تحریرالشام کے دستے سرگرم ہیں۔ شامی اور روسی فضائیہ جوابی حملے کرتی ہے تو زیادہ تر شہری مرتے ہیں۔ ادھر اسرائیل نے شام کے بعد عراق میں بھی ایرانی اڈوں پر حملے شروع کر دیئے ہیں۔ دمشق کے جنوب کے بعد ایران نے وسطی شام سے بھی اڈے ہٹا لیے ہیں۔ ایک سال میں دو درجن حملے اسرائیل نے ایرانی اڈوں پر کیے۔ ایران نے عراق میں اڈے بنائے تو اس ہفتے صوبہ صلاح الدین میں نزخرماطو کے مقام پر اسرائیل نے حملہ کیا۔ اس میں حزب اللہ کے بہت سے گوریلے، ایرانی فوجی اور مشیر ہلاک جبکہ بلیسٹک میزائلوں کا ذخیرہ بھی تباہ ہو گیا۔ حیران کن طور پر عراقی حکومت نے جو ایرانی اڈوں کی مخالف ہے، اسرائیل سے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ یمن سعودی عرب، شام اور عراق چار ملک فلیش پوائٹ بن چکے ہیں، پانچواں ایران بننے والا ہے۔