یہ امر باعث اطمینان ہے کہ رواں برس تمام خدشات کے برعکس اقتصادی نمو کی شرح 3.94فیصد رہی ہے۔ کورونا ‘بھاری قرضوں کی ادائیگی‘ سیاسی عدم استحکام اور حکومت کی معاشی ٹیم میں وقفے وقفے سے ہونے والی تبدیلی کے باوجود اقتصادی نمو کی شرح میں اضافہ وزیر اعظم عمران خان کے بقول حکومتی پالیسیوں پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کا مظہر کہا جا سکتا ہے۔ شرح نمو میں اضافے کے اعداد و شمار اکثر قومی و بین الاقوامی حلقوں کے لئے حیرت کا باعث ہیں۔ خود سٹیٹ بنک اپنی رپورٹس میں شرح نمو 3فیصد تک رہنے کی پیشگوئی کرتا رہا ہے۔ یہ امر اس لحاظ سے بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس شرح نمو 0.47فیصد رہی تھی۔ شرح نمو کے حوالے سے وزارت خزانہ کا تخمینہ موجودہ سطح سے کچھ کم تھا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کے اندازے کے مطابق رواں برس پاکستان کی شرح نمو 1.3سے 1.5کے درمیان ہو سکتی تھی‘ عالمی بینک کا تخمینہ بھی یہی تھا۔یوں پاکستان نے قومی و بین الاقوامی اندازوں کو غلط ثابت کر کے اپنی معاشی کارکردگی میں بہتری کی گنجائش ظاہر کی ہے۔ پاکستان کی شرح نمو میں اضافے کے ضمن میں خدمات کے شعبے نے سب سے زیادہ بہتری دکھائی۔4.43فیصد شرح نمو نے کورونا کے منفی اثرات سے نبرد آزما پاکستانی معیشت کو سنبھالنے میں مدد دی۔ حکومت کی جانب سے زرعی شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی۔ کسانوں کو کھاد پر سبسڈیز دی گئیں۔ زرعی شعبے کی شرح نمو 2.77فیصد رہی۔ اسی طرح صنعتی شعبے کی نمو 3.57فیصد رہی۔ یہ اعداد و شمار قومی معیشت کی ایک اطمینان بخش تصویر پیش کرتے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان پچھلے سوا سال سے کورونا وبا کی گرفت میں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وبا کے معاشی پہلوئوں کو باقی عالمی رہنمائوں کی نسبت زیادہ اہمیت دی۔ کورونا کی پہلی لہر کے وقت 200ارب روپے کی خطیر رقم سے احساس کفالت پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت لاک ڈائون کی وجہ سے جن کم وسیلہ افراد کا روزگار متاثر ہوا انہیں نقد امداد فراہم کی گئی‘ کاروباری مراکز کو بجلی کے بل پر رعایت فراہم کی گئی۔ صاحب حیثیت افراد کو ترغیب دی گئی کہ وہ اپنے اردگرد موجود مستحق افراد کی ضروریات کا خیال کریں۔ حکومت نے کم وسیلہ افراد کی جیب میں نقد رقم ڈال کر معاشی سرگرمیوں میں کرنسی کی گردش برقرار رکھی۔ اگر احساس کفالت پروگرام شروع نہ کیا جاتا اور لاک ڈائون کی وجہ سے کاروبار بند رہتے تو روپے کی گردش تھم جاتی۔ اس سے روپے کو منافع کے لئے استعمال نہ کیا جا سکتا اور اس کی قدر کم ہو جاتی۔ اس ضمن میں عالمی اداروں سے جو نقد امداد ملی ا س سے بھی خاصی مدد ملی۔ بھاری قرضوں کی ادائیگی کے مسائل کی موجودگی پاکستان کی مالیاتی مشکلات میں اضافے کی وجہ ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے آئی ایم ایف‘ عالمی بنک اور دیگر مالیاتی اداروں سے درخواست کی کہ قرضوں کی اقساط کچھ وقت کے لئے موخر کر دی جائیں۔ اس اپیل پر مثبت جواب آیا اور پاکستان کو کورونا سے مقابلے کے لئے خاطر خواہ وسائل میسر آ گئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ ترسیلات زر میں اضافہ کر دیں۔ گزشتہ دس ماہ میں ماہانہ ترسیلات زر کا حجم 2ارب ڈالر سے زاید رہا ہے‘ اپریل 2021ء کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صرف ایک ماہ میں بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے 2.48ارب ڈالر کی خطیر رقوم وطن ارسال کیں۔ رواں مالی سال میں ترسیلات زر کا مجموعی حجم 24ارب ڈالر سے زاید رہنے کا امکان ہے ۔ ایک ایسا ملک جہاں ہر روز دیوالیہ ہونے کی بات کی جاتی ہو اس کے لئے یہ 24ارب ڈالر بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں روشن پاکستان ڈیجیٹل اکائونٹ سے بھی خاطر خواہ مدد ملی۔ مالیاتی مشکلات پر قابو پانے کے لئے کسی ایک شعبے میں اصلاحات پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے سے لے کر ٹیکسٹائل تک کو خصوصی توجہ دی گئی۔ ان دنوں شعبوں میں لاکھوں محنت کش کام کرتے ہیں۔ تعمیرات اور ٹیکسٹائل کے شعبے فعال ہونے سے ان لاکھوں محنت کشوں کا روزگار محفوظ ہوا۔ ساتھ ہی ٹیکس محاصل کے ضمن میں سرکار کو اربوں روپے ملے۔ تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو اس کے معاشی وعدوں کی تکمیل کی ذمہ داری اسد عمر کے سپرد کی گئی۔ آئی ایم ایف کے پاس جائیںیاکسی دوسرے آپشن کو آزمائیں اس بات پر فیصلہ کرنے میں تاخیر اسد عمر کو لے بیٹھی۔ وزارت خزانہ حفیظ شیخ کے حوالے کر دی گئی۔ دو سال تک یہ سلسلہ چلا۔ پھر مہنگائی کنٹرول نہ ہونے پر حفیظ شیخ کو جانا پڑا۔ چند دن قلمدان حماد اظہر کے پاس رہا۔ پھر تجربہ کار شوکت ترین کو معاملات کا انچارج بنا دیا گیا۔ شوکت ترین نے وزارت خزانہ کا قملدان سنھبالنے کے بعد آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پروگرام کی شرائط کو غیر مناسب قرار دیا۔ ان کی رائے میں ان شرائط میں ایندھن مہنگا کرنے پر زور دیا گیا جس سے اشیا کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور وہ بین الاقوامی منڈی میں مسابقت کے قابل نہیں رہتیں۔ شوکت ترین کئی اصلاحات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جن سے امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان مشکلات کے بھنور سے نکل سکتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ آئندہ مالی سال کے دوران قومی معیشت کی شرح نمو 6.5فیصد کی سطح تک لائی جا سکے گی۔