وزیر اعظم نے بھارتی انتخابات میں نریندر مودی کی کامیابی کے لئے نیک خواہشات ظاہر کی ہیں اور کہا ہے کہ وہ جیت گئے تو مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد ملے گی ع ہائے کس بت کی پرستش میں گرفتار ہوئے اور مودی نے بھی نیک خواہشات کا نیک جواب دینے میں دیر نہیں کی۔ بلاتاخیر فرمایا‘ مسئلہ کشمیر ویسا ہی حل کریں گے جیسے حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کے مسئلے حل کئے تھے۔ دونوں ریاستوں پر بھارت نے بزور قبضہ کیا ‘ انہیں ضم کیا اور دنیا سے یہ قبضہ جائز تسلیم کرایا۔ ویسے سچی بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر تو 1999ء میں حل ہو چکا تھا۔ اب یہ مسئلہ رہا ہی نہیں‘ اب مسئلہ کشمیر کی تحلیل کا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی قوت ایمانی کے ہاتھوں مجبور ہیں اور یہ سچائی تسلیم نہیں کر رہے کہ مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ تحلیل کا معاملہ یہ ہے کہ مودی کے دوبارہ برسر اقتدار آتے ہی مقبوضہ وادی کی وہ خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی جائے گی جس کے تحت بھارت سے کوئی آدمی آ کر یہاں زمین جائیداد نہیں خرید سکتا۔ یہ حیثیت ختم ہوتے ہی بھارت سے تارکین وطن کا ایک سیلاب آئے گا اور مقبوضہ وادی کی مسلم اکثریتی حیثیت اس میں تحلیل ہو جائے گی اور بھارت کو بہت بڑا سیلاب لانے کی ضرورت بھی نہیں۔ اسی نوے لاکھ مسلمان ہیں‘ تیس چالیس لاکھ ہندو سکھ پہلے ہی موجود ہیں بس دو چار ملین کا سونامی کافی رہے گا۔ پھر ہم کیا کریں گے اور پھر کوئی کیا کرے گا ہماری قوت ایمانی یہ سوچنے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔ ٭٭٭٭٭ مسئلہ کشمیر حل کرنے کا سہرا سارے کا سارا جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے 1999ء میں کارگل کا معرکہ سر کر کے تاریخ کا یہ قرض چکا دیا۔ مسئلہ جیسے حل ہونا چاہیے تھا‘ اس کی امید اور بڑی حد تک یقینی امید واجپائی کے دورہ لاہور کی صورت پیدا ہوئی تھی لیکن ہم نے اس نخل امید کو برگ و با لانے سے پہلے ہی کچل دیا‘ مسل ڈالا۔ گویا اب ’’غزوہ ہند‘‘ کی بھی گنجائش نہیں رہی۔ وہ سرخ ٹوپ دانشور کہاں جائیں گے جو نواز شریف کو غزوہ ہند کے راستے کا پتھر قرار دیتے تھے ۔ ٭٭٭٭٭ یہ سوال اٹھانے کی گنجائش اور حالات نہیں ہیں کہ مودی پر وزیر اعظم کا دل جس نرالے ڈھنگ سے آیا ہے اور جس طرح انہوں نے جہادی تنظیموں کے راز تخلیق سے پردہ اٹھایا ہے اس کی حمایت کی جائے یا مخالفت۔ حمایت کرتے ہیں تومحب الوطنی کے پرانے ڈاکٹرائن کے تحت غیر محب وطن اور مودی کے یار قرار پانے کا خدشہ ہے اور مخالفت کرتے ہیں تو نظریہ پاکستان کے نئے ایڈیشن کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگے گا۔ چنانچہ فی الوقت ’’لاادری‘‘ کہنے میں ہی عافیت ہے۔ بہرحال ‘ اس نئے معاملے سے پانچ روز پرانی خبر یاد آئی۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے چیئرمین بلاول بھٹو سے ملاقات کی ہے اور انہیں ’’کالعدم تنظیموں‘‘ کے خلاف بیان دینے سے باز رہنے کا نیک مطلوب مشورہ دیاہے۔ خبر کے مطابق بلاول نے یہ نیک مطلوب مشورہ مسترد کر دیا جس پر کہا جاتاہے کہ وہ دلبرداشتہ ہو گئے۔ دلبرداشتہ ہونا غیر ضروری ہے۔ آپ نے پیغام رسانی کا فرض ادا کیا اور پیغام برداروں کی نظر میں سرخرو ہو گئے۔ جو آپ کا فرض تھا‘ وہ آپ نے پورا کر دیا۔ اب کوئی نہ مانے تو نیک بد کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ جناب بہت اچھے پیغام رساں ہیں۔ بہت اچھے سے پیغام رسانی کرتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ اس کالم میں چند ہفتے بلکہ دو تین ماہ پہلے پیش گوئی کی تھی کہ صدارتی نظام پر بحث شروع ہونے والی ہے۔ لیجیے جناب وہ شروع ہو گئی لیکن کچھ بے مزا سی ہے۔ دلائل دینے والے بے دلی سے دلائل ڈھونڈ رہے ہیں۔ ایک شدید محب وطن دانشور نے لکھا‘ خاں صاحب تو پہلے والوں سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ کھل کر نہیں لکھا ‘ بس سوال چھوڑ گئے یعنی قارئین خود سوچ لیں کہ اب صدارتی نظام ہی آخری چارہ ہے۔ اضافہ اس بار یوں ہوا کہ اسلامی صدارتی نظام لایا جائے۔ حکمران جماعت کا اپنا تو نہیں اس کے وابستگان کا سوشل میڈیا پر ایک اکائونٹ ہے‘ خاصا مشہور اور سرگرم بھی ہے۔ اس نے صدارتی نظام کے حق میں پورا زور لگا کر جو دلیلیں دریافت کی تھیں۔ صدارتی نظام یا اسلامی صدارتی نظام لانا اب دائرہ امکان سے خارج ہے۔ یہ بحث آگے بڑھے گی نہ بیل منڈھے چڑھے گی۔ معاملہ نیب کے ’’ٹھوس‘‘ شواہد کی طرح ٹھس ہوجائے گا اور بحث کی مہم اسی طرح سے اڑ جائے گی جیسے ذرا سی آندھی نے پشاور میٹرو کی چھتیں اور کھڑکیاں اڑا دیں۔ ٭٭٭٭٭ ضمناً یہ بتانے میں خرابی نہیں کہ امریکہ کو اس آئین سے کیا ناراضگی ہے۔ وہ دو ترامیم خاص طور سے ختم کرانا چاہتا ہے۔ ایک توہین رسالت والی اور دوسری اس سے بڑھ کر ختم نبوت والی۔ بھٹو صاحب کو تحریک نظام مصطفی شروع ہونے سے پہلے ہی پھانسی دینے کا فیصلہ ہو چکا تھا اور فرد جرم میں ختم نبوت والی ترمیم بھی شامل تھی۔ ضیاء الحق نے حکومت پر قبضہ کیا تو اس شق کو ختم کرنے کے لئے سرگرم ہوئے‘ لیکن پھر خود شیخ الاسلام بننے کا فیصلہ کیا تو اس ترمیم کے حامی بلکہ محافظ بن گئے۔ نتیجہ خود بھی بھٹو صاحب کے پاس پہنچا دیے گئے۔ علاوہ ازیں کچھ’’ڈومیسٹک‘‘ مسائل بھی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ڈاکٹروں کے بورڈ نے فیصلہ دیا‘ مریض کا ایک گردہ فیل‘ دوسرا ناکارہ ہونے کی طرف بڑھ رہاہے۔ دل کی رگیں ماری گئی ہیں‘ نظام تنفس کام کرنا چھوڑ رہاہے جسم کے ایک طرف فالج ہے‘ دوسرا حصہ مفلوج ہونے کے امکانات ہیں۔ بینائی ختم ہو گئی ہے‘ حافظہ کام نہیں کر رہا۔ جگر ’’سی‘‘ درجے میں پہنچ گیا ہے۔ مجموعی طور پر مریض کی حالت تسلی بخش اور شفایاتی کی راہ پر گامزن ہے۔رپورٹ سمجھ میںنہیں آئی؟ صدر مملکت کا بیان پڑھ لیجیے۔ فرمایاہے کہ صنعت ہو یا کاروبار‘ ملکی معیشت مجموعی طور پر ترقی کی طرف گامزن ہے۔