نیلسن منڈیلا نے سیاستدان اور لیڈر میں یہ فرق بتایا تھا کہ سیاستدان اگلے الیکشن اور لیڈر اگلی نسل کے بارے میں سوچتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے لیڈروں اور سیاستدانوں نے سوچنے کا کام افسر شاہی کے سپرد کر رکھا ہے جبکہ ہمارا بیورو کریٹک سسٹم انگریز نے ہندوستان کے غلاموں پر حکمرانی کرنے کے لئے استوار کیا تھا۔ اسے بدقسمتی کہیے یا سیاسی کج فہمی اور لالچ کہ آزادی کے بعد سیاستدانوں نے بیورو کریسی کو اپنے وقتی اور ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنا شروع کیا ۔ حکومتی مشینری میں سیاسی مداخلت نے ملک میں اقربا پروری، رشوت کو فروغ دیا جس سے ادارے تباہ ہونا شروع ہوئے۔ عمران خان نے اداروں میں سیاسی مداخلت ختم کر کے کرپشن کے خاتمے میرٹ‘شفافیت اور سب کے لئے ایک قانون کا نعرہ لگا کر عوام سے ووٹ لئے ۔مگر یہ ’’ایماندار بندہ‘‘ بھی کرسی پر بیٹھنے کے بعد بیورو کریسی کے رنگ میں رنگ کر ربڑ سٹیمپ بنامحسوس ہوتا ہے ۔آج تحریک انصاف کے وزیر اعظم اور صدر افسر شاہی کے تحریر کردہ آرڈی ننسوں پر دستخط کر کے اداروں کی تباہی پر مہر ثبت کر رہے ہیں۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف بیورو کریسی کے لکھے فیصلوں کو عوام پر مسلط کرنے کے لئے عدالتی فیصلوں سے بھی کھلواڑ کر رہی ہے۔ اس کی بد ترین مثال2020ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا پاکستان میڈیکل کمشن کے فیصلے کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے کر پی ایم ڈی سی کو بحال کرنا ہے مگر افسر شاہی نے انصاف کی دعویدار حکومت سے 16ستمبر 2020ء کو نا صرف ایک بار پھر پی ایم ڈی سی کو ختم کروانے کے حکم نامے پر دستخط کروائے بلکہ پی ایم سی کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے صدارتی آرڈیننس بھی جاری کروا لیا ۔ حیران کن امر تو یہ ہے کہ صدارتی آرڈیننس پر دستخط ان صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے کئے جو بقول ڈاکٹر اشرف نظامی پی ایم اے کے عہدیداروں کو یہ یقین دہانی کروا چکے تھے کہ جب تک وہ ایوان صدر میں موجود ہیں پی ایم سی کی صورت میں غیر جمہوری اور غیر قانونی نظام ڈاکٹروں پر مسلط نہیں ہونے دیں گے۔ تحریک انصاف کی اس ناانصافی پر میڈیکل پروفیشن سے وابستہ درد دل رکھنے والے پریشان ہیں تو میڈیکل شعبہ کی درجنوں تنظیمیں سراپا احتجاج۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اصلاحات کے نام پر ایسا کیا کرنے جا رہی ہے جس سے ڈاکٹر حضرات اور ان کی تنظیموں میں بے چینی پائی جاتی ہے اور کیا ان اصلاحات کا واقعی مقصد نظام میں شفافیت اور کرپشن کا خاتمہ ہے یا پھر افسر شاہی اصلاحات کے نام پر اپنوں کو نوازنے اور کرپشن کا ایک اور در واکرنا چاہتی ہے۔ پی ایم اے کا پہلا اعتراض تو پی ایم سی کے انتظامی ڈھانچے پر ہے کہ میڈیکل ایسے حساس ادارے کا انتظام ایک غیر متعلقہ شخص کے سپرد کر دیا گیا جو میڈیکل کی سوجھ بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے عوامی خدمت کے شعبے کو کاروباری انداز میں کمائی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے۔ پی ایم اے ‘پی ایم سی میں غیر متعلقہ شخص کو سربراہ لگانے کی وجہ بھی افسر شاہی کا ذاتی مفادات بتاتی ہے اور یہ محض قیاس آرائی یا پراپیگنڈا نہیں بلکہ پی ایم سی نے اپنے قیام کے بعد ایسے اقدامات کیے بھی ہیں۔ این ایل ای کی صورت میں لوٹ مار کا ایسا نظام ڈاکٹروں پر مسلط کیا گیا ہے جس سے ملک میں غریب کے بچے کیلئے ڈاکٹر بننا ناممکن ہو جائے گا۔ پاکستان کے ڈاکٹروں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا پوری دنیا میں منوایا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کا نظام تعلیم ملک کے انتہائی ذہین اور محنتی طلبا کو میڈیکل کے شعبے کیلئے منتخب کرتا تھا۔ یہ قابلیت اور صلاحیت کا ہی ثمر تھا کہ غریب کا بچہ اپنی محنت کے بل بوتے پر ڈاکٹر بن جاتا تھا۔ سخت میرٹ کے شفاف نظام کا نتیجہ یہ نکلا کہ اشرافیہ کے بچوں کی نسبت غریب دیہاتیوں کے بچوں کی میڈیکل کالجز میں تعداد بڑھنے لگی۔ جو سیاسی افسر شاہی کو قبول نہ تھی اس لئے غریب کے بچوں کے میڈیکل میں داخلے کو روکنے کیلئے ایف ایس سی کے بعد میڈیکل کے داخلے کے لئے انٹری ٹیسٹ کا ڈھونگ رچایا گیا۔ افسر شاہی نے انٹری ٹیسٹ کی شرط رکھ کر ایک تو ٹیسٹ کی تیاری کروانے والی اکیڈمیوں کیلئے اربوں روپے کی لوٹ مار کا دروازہ کھول دیا دوسرے بھاری فیس اور اکیڈمیوں کے چند شہروں میں ہونے کی وجہ سے دیہی علاقوں کے غریب مگر ذہین طلبا کے لئے میڈیکل میں داخلے کا راستہ بند کر دیا گیا ،جب اشرافیہ کا اس سے بھی پیٹ نہ بھرا تو اب این ایل ای کی شکل میں ایک اور رکاوٹ کھڑی کی جا رہی ہے ۔ NLE MDCATاور NEBکے ٹیسٹ کے ذریعے میڈیکل کے طالب علموں کے غریب والدین کی جیب سے 250 ارب روپے بٹورنے کا پروگرام بنایا گیا ہے NLE کے امتحان کے ذریعے 13000نئے ڈاکٹروں کی جیب سے 2ارب روپے نجی سٹیٹ کمپنی کو دیے جائیں گے یہی نہیں اشرافیہ کے جو بچے میرٹ پر نہیں آ پاتے تھے اور دولت کے بل بوتے پر بیرون ملک میڈیکل کی تعلیم کیلئے جاتے ہیں،پی ایم سی نے بیرونی ممالک میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے امیر زادوں کو نوازنے کیلئے دو سال بعد پاکستان کے میڈیکل کالجز میں واپس لانے کیلئے بھی راہ نکال لی ہے۔ ماضی میں این ایل ای کا امتحان صرف ان طلبا سے لیا جاتا تھا جوغیر ملکی یونیورسٹیوں سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کر کے پاکستان لوٹتے تھے اب یہ ٹیسٹ پاکستان کے میڈیکل کالجز میں تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹروں پر بھی تھونپ دیا گیا ہے۔ اگر مقصد تعلیم کا معیار برقرار رکھنے کیلئے ہوتا تو یہ ٹیسٹ تمام میڈیکل کالجز کے طلباء کیلئے لازمی قرار پاتا۔ تحریک انصاف میڈیکل کی تعلیم کو کاروبار بنانے کے لئے ہی قانون سازی نہیں کر رہی بلکہ ایم ٹی آئی کا قانون نافذ کر کے ٹیچنگ ہسپتالوں کو نجی کاروباری افراد کے حوالے بھی کر رہی ہے۔ ایم ٹی آئی کے نفاذ کے بعد گورنمنٹ اربوں روپے کے فنڈ گورننگ باڈی کی لوٹ مار کے لئے فراہم کریگی جبکہ ہسپتالوں کو پرائیویٹ انتظامیہ فلاحی اداروں کے بجائے کاروباری مراکز میں تبدیل کر دے گی۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ یہ ناکام تجربہ ماضی کی حکومتوں نے بھی کیا اورواپس لینے پر مجبور ہوئیں۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم کی ٹیم میں ڈاکٹر فیصل سلطان کے علاوہ ڈاکٹر یاسمین راشد، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے صورت میں میڈیکل کے شعبے اور ڈاکٹر کمیونٹی کی تنظیموں کا تجربہ رکھنے والی شخصیات شامل ہیں اس کے باوجود تحریک انصاف ہیلتھ مافیا کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی بالخصوص وزیر اعظم کو اس حساس مسئلے پر ازسرنو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ حکومت کہیں اصلاحات کے نام پر کاروباری مافیاز کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے تو استعمال نہیں ہو رہی ۔