امریکی لائف سٹائل ماہانہ میگزین ووگ میں ملالہ یوسف زئی کے انٹر ویو میں نکاح کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس پر تبصروں مختلف حوالوں سے تشریح اور تنقید کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے۔ جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ نوبل انعام یافتہ ملالہ کی کتاب ’’آئی ایم ملالہ‘‘کو پڑھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ وہ جس ماحول، معاشرے اور بدلی دنیا میں جا بسی ہے اور اس کے حصے میں جو غیر معمولی پذیرائی، عزت اور شہرت آگئی ہے اس کی اس کی سوچ و فکر میں نئے اندازنے جنم لیا ہے۔لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ ہم ملالہ کے متنازعہ جملے اس کے خیالات اور فکر پر بحث کرنے سے پہلے یہ طے کر لیں کہ اس کی شخصیت کا تاثر ہمارے ذہنوں میں کیا ہے؟آپ سب شاید میرے اس خیال سے اتفاق کریں گے کہ ملالہ یوسف زئی ایک خوش نصیب لڑکی ہے مقدر کی دیوی اس پر یوں مہربان ہوئی کہ اسے وہ سب کچھ مل گیا جس کے لئے اس نے اس درجے تگ و دو نہیں کی تھی۔ قدرت اس پر یوں مہربان ہو گئی کہ وہ سب کچھ اس کی جھولی میں آگرا۔ جو اس کی خواہشات، خوابوں اور آرزؤں سے ہزاروں گنا ہ زیادہ ہے۔ جس ملالہ یوسف زئی کا امیج آپ کے ذہن میں ہوگا جس نے سوات میں بچیوں کی تعلیم کی جدوجہد کی ایک ایسے وقت میں جب طالبان علاقے میں سر گرم تھے ۔ ملالہ کی شہرت اس وقت عام لوگوں تک پہنچی جب گل مکئی کے قلمی نام سے ان کی چند ڈائریاں بی بی سی سروس میں شائع ہوئی۔ وہ کم عمر تھی لیکن اس کی تحریروں میں عزم و حوصلہ جھلکتا تھا وہ اپنی بات بڑے منطقی انداز میں کر رہی تھی۔ اس دور میں سوات میں ٹی ٹی پی فضل اللہ کے گروپ کا بڑا زور تھا۔ انہوں نے بچیوں کے اسکول بند کروا دئیے۔ ملالہ اپنی تحریروں میں اس بندش کوالمیہ قرار دے رہی تھی۔ اپنے معصومانہ اندا زمیں اس نے بچیوں کے حقوق اور ان کے لئے تعلیم کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کیا۔بعض لوگوں کا خیال تھا کہ گل مکئی کے نام سے لکھی جانے والی ڈائریاں بی بی سی کے نمائندے کی تحریر کردہ ہیں۔ لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کروں گا۔ میں نے اس وقت ملالہ کو پہلی بار اسلام آباد کے ایک سیمینا ر میں دیکھا تھا وہ بہت کم عمر تھی۔ اس سیمینار میں اس کو بولنے کا موقع ملاتو وہ مجھے جذباتی ،پر عزم اور حوصلہ مند لڑکی دکھائی دی۔ یہ یقینا دنیا میں کسی بھی انسان کے لئے قابل فخر اعزاز ہو تا ہے جو اسے نا قابل فراموش خدمت کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔ انجیلینا جولی جیسی شہرت یافتہ ادا کارہ نے نیوز ویک میگزین میں ملالہ پر خوبصورت مضمون لکھا۔ اینجیلینا نے لکھا کہ وہ مجھے اپنے خوابوں کی شہزادی لگتی ہے میں اس کی کہانی اپنے بچوں کو سنایا کرتی تھی۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے ملالہ پر حملہ اس وقت ہوا جب پاکستان فوج کے ایکشن کے بعد وہاں مکمل سکون ہو گیا تھا۔ ملالہ اس وقت ساتویں جماعت کی طالبہ تھی وہ دو، تین برسوں میں میٹرک کر لیتی اور پھر کالج میں جا کر وہ آئندہ اپنا پسندیدہ شعبہ اختیار کر لیتی لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ ملالہ شدید زخمی ہو گئی لیکن خوش قسمتی سے اسے فوری طبی امداد مل گئی، فوجی قیادت کی دلچسپی سے اس کا فوری ہنگامی علاج ممکن ہوا۔ مغرب نے اس حملے کو ایک خاص تناظر میں دیکھا وہ اچانک ان کے لئے اہم ہوگئی۔ برطانیہ نے ملالہ اور اس کی فیملی کو بلا کر اسے دنیا کی بہترین طبی امداد فراہم کی ملکہ ایلزبتھ نے اسے خصوصی طور پر بکنگھم پیلس میں مد عو کیا۔ سابق امریکی خاتون اول ہیلری کلنٹن کے توسط سے صدر امریکہ نے اسے وائٹ ہاؤس کی سیر کرائی۔ اب آئیے اس طرف کہ اس نے آخر شادی اور نکاح کے حوالے سے کیا کہہ دیا۔ وو گ میگزین درحقیقت ایک فیشن میگزین ہے 80کی دہائی کے اوائل میں جب میں نے ایک اخبار کے میگزین میں ذمہ داریاں سنبھالیں تو مطالعہ کے لئے ووگ سمیت بے شمار بین الاقوامی اخبارات او ر رسائل پڑھنے کا موقع مل جاتاتھا۔ اس وقت گوگل اور انٹر نیٹ کا دور شروع نہیں ہوا تھا۔ ووگ میں میں نے ملالہ کے انٹرویو کو ایک بار نہیں دو بار پڑھا۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ ملالہ نے آخر کیا کہہ دیاجس کی پورے سوشل میڈیا کی دھوم مچ گئی تنقید کی بوچھاڑ ہو گئی یقین جانیے میں اسے تمام تر سیاق و سباق کے ساتھ پڑھااس کی سائیڈ اسٹوریز پڑھنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ملالہ نے دو سال قبل جب وہ آکسفورڈ میں زیر تعلیم تھی اپنے کچھ تاثرات ووگ کے نمائندے سے شئیر کئے تھے۔ اس انٹرویو کے حوالے سے ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے بڑے وثوق سے یہ کہنے کی کوشش کی کہ ملالہ نے کوئی متنازعہ بات نہیں کی ہے بلکہ صحافی نے اسے سیاق و سباق کے بغیر شائع کیا۔ میں نے انٹرویو میں اس کے ان جملوں کو غور سے پڑھا جس میں وہ نکاح کے متعلق کہہ رہی ہے۔ اور اب میں پورے یقین سے کہہ رہا ہوں کہ ضیاء الدین یوسف زئی کی بات درست نہیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی ایک کہی ہوئی متنازعہ بات اور دلیل کا انتہائی کمزور انداز سے دفاع کیا ہے۔ اسے کسی بھی سیاق و سباق سے دیکھا جائے بات بالآخر وہی ہے جو انہوں نے کہی، وہ جس کا سوشل میڈیا پر واویلا رہا۔ میرے خیال میں یوسف زئی صاحب کا اتنی غیر مبہم سادہ اور واضح دلیل کا اتنے کمزور انداز سے دفاع کرنے سے بہتر تھا کہ وہ اس پر معذرت کر لیتے۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ان کی صاحبزادی نے اپنی بات کہنے کے لئے صحیح الفاظ کا انتخاب نہیں کیا۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ایک ایسے ماحول میں آگے بڑھنے والے ملالہ نے شوخی اور لااْبالی پن میں ایسی بات کر دی۔ جو اسے نہیں کرنی چاہئیے تھی۔ اور وہ اپنی اور اپنی بیٹی کی طرف سے اس پر معذرت چاہتے ہیں اور وہ اللہ کے حضور اپنی توبہ معذرت کی صورت میں پیش کر دیتے تو شاید بات اسی وقت ختم ہو جاتی۔ انہیں یہ اندازہ یقینا ہو گیا ہو گا کہ انہوں نے جتنے جتن سے اپنی بیٹی کا جو دیو مالائی امیج بنایا تھا اسے اس بیان سے دھچکا لگا ہے۔ حضرت علیؓسے کسی نے نکاح کی اہمیت کے بابت سوال کیا تو فاتح خیبر نے فرمایا۔ نکاح اللہ کا حکم اور حضرت آدم ؑسے نبی آخر الزماں ﷺ تک نبیوں کی سنت ہے۔ پوچھنے والے نے پوچھا کہ نکاح کے بغیر عورت اور مرد کے جسمانی تعلق کی حیثیت کیا ہے؟ آپؓ نے فرمایا۔ ایسا کوئی بھی تعلق حرام ہے۔