آٹھ مارچ کو عورت کا دن منایا جاتا ہے۔ حالانکہ ہر دن ہی عورت کا دن ہے۔ یہ عورت ہی ہے جو دنوں، دلوں اور گھروں کو آباد رکھتی ہے۔ عورت نہ ہو تو گھر سے دل تک سب کچھ بے آباد اور ویران لگتا ہے۔ عورت اپنے ہر روپ میں، خوب صورت، حسن، امید اور زندگی میں چہل پہل کی علامت ہے۔ یہ عورت ہی ہے جو زندگی کے یکسانیت بھرے دنوں کی گرد جھاڑتی اور کائی زدہ شب و روز کو مانجھتی اور چمکاتی ہے اور اس زندگی کی بے آباد ویرانیوں کو اپنے وجود سے آباد کرتی ہے۔ وہ کائنات میں زندگی تخلیق کرنے کے معجزاتی بندوبست میں حصہ دار ہوتی ہے۔ یہی اس کا سب سے بڑا فخر ہے۔ وہ نہ صرف زندگی تخلیق کرتی ہے بلکہ اس زندگی کوپروان چڑھانے میں اپنی ذات کے سارے رنگ اس پر نچھاور کردیتی ہے: دوسرا اک جنم لیا میں نے تجھ کو جس پل جنم دیا میں نے تو میرا پیار خواب زندگانی بھی تجھ میں سب کچھ بہم کیا میں نے اپنی پلکوں سے چھائوں بنتی رہی یوں ہی حدت کو کم کیا میں نے عورت اپنے ہر روپ میں اپنے سے جڑے ہوئے رشتوں کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ایک تگ و دو میں لگی رہتی ہے۔ محبت، ایثار اور قربانی کے چولہے میں خود کو ایک ایندھن کی طرح جلاتی، اپنوں کی زندگیوں کو سکون، محبت اور مٹھاس سے بھرتی جاتی ہے۔ زندگی کے پتھریلے راستوں سے مسکراتے ہوئے گزر جانے کا سلیقہ عورت کو آتا ہے وہ اسی سلیقے اور ہنر سے رشتوں کے اندر موجود میلے پن کو دھوتی اور اجالتی ہے۔ وہ پرانی چیزوں کی گرد جھاڑ کر نئی آرائشوں کا ہنر بھی جانتی ہے۔ یہ ہنر ہر ماں اپنی بیٹی کو سکھاتی ہے۔ درد میں مسکرانا: میری بیٹی نے یہ مجھ سے کئی برسوں میں سیکھا ہے پرانے آئینے رکھ کر نئی آرائشیں کرنا آٹھ مارچ کو عورت کا دن منایا جاتا ہے۔ لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ مرد کا دن کیوں نہیں منایا جاتا تو مجھے منو بھائی مرحوم کی بات یاد آتی ہے۔ کہ دن ان کے منائے جاتے ہیں جن کی زندگی میں شام آ چکی ہو اور عورت پر تو ہمیشہ ہی جھٹپٹے کا وقت رہتا ہے نہ پورا دن، نہ پوری رات، ایک سرخی سا وقت اس ذات کو گھیرے رہتا ہے۔ ایک بے یقینی، ایک عدم تحفظ کا احساس، شاید اس لیے کہ اس کا گھر، اس کا ٹھکانہ، اس کا سائبان بدلتے رہتے ہیں۔ باپ، بھائی، شوہر، بیٹا وہ خود بھی بدلتی رہتی ہے۔ تمام عمر، زینہ ذات کی سیڑھیاں طے کرتی ہوئی خود کو کھوجنے اور تلاشنے میں گزار دیتی ہے۔ ابھی کچھ روز پہلے نوشی گیلانی کا یہ شعر پڑھا تو بہت اچھا لگا: سرمئی گھر بھی بسایا ہوا ہے بار شہرت بھی اٹھایا ہوا ہے سرمئی گھر کی اصطلاح بہت معنی خیز ہے اور گہری ہے۔ گھر آنگن سے اس کی جذباتی وابستگی اور پھر خواب اور خواتین کے سفر میں گھر سے باہر نکلنا۔ مرد کا معاشی بوجھ بانٹنے کے لیے اور کبھی اپنی ذات اور صلاحیت کو منوانے کی خواہش میں وہ گھر سے دشت کا سفر طے کرتی ہے: ہر ایک شے آنکھ چرا کر پھر ایک دن آنگن سے دور دشت میں جانا پڑا مجھے اسی لیے گھر سے باہر کام کرنے والی عورت کی مسافت ہمیشہ دوہری ہوتی ہے وہ دوہرا بوجھ اٹھاتی ہے۔ گھر سے دفتر کے لیے بھی نکلے تو بے ترتیب الماریوں اور ان دھلے برتنوں کا بوجھ اپنے پرس میں ڈالے پھرتی ہے۔ دفتر کے کام نمٹاتے نمٹاتے رات کی دعوت کا مینو ترتیب دیتی ہے۔ گھر واپس آئے تو باورچی خانے میں کام کرتے ہوئے اسے دفتر کے ضروری کام یاد آنے لگتے ہیں۔ ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر۔ ان تمام ذمہ داریوں کو ادا کرتے کرتے وہ ٹوٹتے، بکھرتے اور کمزور پڑتے رشتوں کو بھی سنبھالتی ہے۔ بچے پالتی، شوہر کی خدمت گزاری کرتی، سسرال کی خاطر داریاں کرتی، آس پاس کے رشتوں کو نبھاتی ہے۔ بہتے پانی پہ مکاں کو گھر بنانے کی جدوجہد میں کئی بار جھکتی، سمجھوتے کرتی، ایک عجب سلیقے اور ہنر سے زندگی بسر کرتی ہے کہ اپنی ذات سے جڑے رشتوں میں محبت او رخوشی بانٹتی جاتی ہے۔ وہ جیسی زندگی گزارتی ہے اس تجربے کو وہی بیان کرسکتی ہے۔ مرد عورت کی زندگی کے تجربے کو بیان نہیں کرسکتا۔ ’’سمجھوتے کی چادر‘‘ جیسی نظم زہرا نگاہ ہی لکھ سکتی تھیں: ملائم گرم سمجھوتے کی چادر یہ چادر میں نے برسوں میں بنی ہے کہیں بھی سچ کے گل بوٹے نہیں ہیں کسی بھی جھوٹ کا ٹانکا نہیں ہے اسی سے میں بھی تن ڈھک لوں گی اپنا اسی سے تم بھی آسودہ رہو گے اسی کو تان کر بن جائے گا گھر بچھا لیں گے تو کھل اٹھے کا آنگن اٹھالیں گے تو گر جائے گا چلمن ملائم گرم سمجھوتے کی چادر منائیت کے اس تجربے کو بیان کرنے سے کشور ناہید بھی بچ نہیں پائیں۔ لاکھ دبنگ اور مرد مار قسم کی زندگی انہوں نے گزاری مگر وہ ایک عورت ہونے کے تجربے نے جو کچھ ان کے احساس کو دیا اس کا ایک خوب صورت اظہار انہوں نے اپنے اس شعر میں کیا: کچھ یونہی زرد زرد سی ناہید آج تھی کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا ایک عورت بیک وقت کئی زندگیاں جیتی ہے۔ ایک دنیا جو اس کے باہر آباد ہوتی اور ایک دنیا اس کے اندر بھی رہتی ہے۔ اس کے خدشوں، وہموں، خوابوں اور خواہشوں کی دنیا۔ ہجرت کئے ہوئے آنگن کی یادوں سے آباد دنیا۔ جہاں زندگی کی تلخیوں سے دور ایک گھر ہے۔ ماں باپ کا چھت نا ر سایہ ہے اور وہ ہے۔