شہر اقتدار میں عثمان مرزا کاجوڑے پر تشدد‘نورمقدم کے بہیمانہ قتل اورڈکیتیو ں کے پے درپے واقعات کے باعث سوگ اور خوف کی فضاقائم ہے۔عیدکے بعد ملتان سے واپس لوٹنے کے بعدجہاں بھی چند احباب کے ساتھ ملاقات ہوئی ‘کچھ ہی دیر بعد یہی حادثات زیر بحث آئے۔سیف سٹی منصوبہ‘جدید ٹیکنالوجی اور پولیس کی نئی حکمت عملی کے باوجود شہراقتدار میں جرائم تھمنے کا نام نہیں لے رہے ۔ شہر میں آبادی کے بے تحاشا دباؤ سمیت جرائم بڑھنے کے کئی محرکات ہیں،جن کی جانب حکام بالاچشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ سینئر صحافی عادل عباسی سمیت کئی شہری جب اپنے آبائی علاقوں میں عید کی خوشیاں منانے میں مصروف تھے انہی لمحوںمیں اسلام آباد میںاُنکے گھروں کے تالے اور دروازے توڑ کر لُوٹ مارکی جارہی تھی۔ اسلام آباد کی اس دل سوزکیفیت میں بدلتے ملتان کے رنگ اطمینان‘اُمید اور خوشی کا سامان فراہم کررہے ہیں۔ ملتان جائے بغیرتو عید کاگمان تک ممکن نہیں اور ملتان پہنچ کر شاکربھائی سے ملاقات نہ ہو،یہ بھی ناممکن ہے۔خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیرنے کے بے تاج بادشاہ شاکرحسین شاکر سے اپنے دل کا حال شیئرکرنے اور ملتان کا حال جاننے کا نایاب موقع بھلا کون ہاتھ سے جانے دیتا ہے۔اس مرتبہ شاکربھائی سے ملاقات کیلئے ہردلعزیزاورملتانیوں کی جان رانا نثار صاحب بھی میرے ہمراہ تھے۔ شاکربھائی کے گھر جانے کیلئے پرانا بہاولپور روڈہمیشہ میرا روٹ رہا ہے۔پرانے بہاولپور روڈ پر انگریز دور کی سرکاری افسران کیلئے کینالوں پر محیط رہائش گاہوں میں گھنے درخت اور کشادہ سڑک بہت اچھی لگتی۔ پھردیگر شہروں کی طرح ملتان میں بھی ٹریفک کے سیلاب نے روانی کو متاثرکیا تو سڑک دورویہ کرنے کیلئے کچھ درخت کاٹ کر کنکریٹ کی چھوٹی دیوار تعمیر کردی گئی ہے۔ اب اس سڑک سے گزریں تودل پر بوجھ محسوس ہوتاتھا۔ اس بارشاکر بھا ئی کے گھر کی راہ لی تو شاہراہ کے درمیان اور اطراف میں لگے سرسبز پودوں نے پرانا حسن بحال ہی نہیں بلکہ نکھار بھی دیا تھا۔ دیگرشاہراؤں کے اطراف بھی سرسبز پودے دکھائی دئیے۔شاکربھائی سے کنکریٹ کے شہر میں ہریالی کی وجہ پوچھی، تو انہوں نے اس ہریالی کو چیف کمشنر ملتان جاوید اختر محمود کی کاوش اورلگن کانتیجہ قراردیا۔پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے منکسرالمزاج افسر اور پروٹوکول سے مبرا جاوید اختر محمود کا تعلق ملتان سے ہے۔وفاقی وصوبائی حکومتیں اربوں روپے کے فنڈز کیساتھ پاکستان کو درپیش ماحولیات کے سنگین مسئلے سے نمٹنے کیلئے شجرکاری کے مختلف منصوبے چلارہی ہیں۔ شجرکاری کے یہ منصوبے ماحولیاتی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے ناگزیر ہوچکے ہیں۔ چیف کمشنر ملتان نے بھی ملتان شہراور جنوبی پنچاب کے کسانوں کو درپیش مسائل حل کرنے کیلئے حکمت عملی مرتب کی۔جاوید اختر محمود نے چیف کمشنر ملتان کے دفتر کوعوام کیلئے کھول دیا۔سائلین سرکاری اوقات کار کے دوران کسی سفارش کے بغیر چیف کمشنر سے براہ راست ملاقات کرسکتے ہیں۔اس اقدام سے سرکاری اہلکاروں کی جیب گرم کرنے کی نوبت ٹلنے اور عوام کے مسائل برق رفتاری سے حل ہورہے ہیں۔ چیف کمشنر تک عوام کو براہ راست رسائی کا یہ نسخہ دیگر افسران بھی آزماسکتے ہیں بشرطیکہ خلوص نیت کیساتھ عوام کی خدمت اور مسائل کا حل ترجیح ہو۔پہلے مرحلے میں ملتان میں درختوں کی اہمیت سے متعلق عوام میں شعور اور احساس بیدار کرنے کیلئے مہم چلائی گئی۔شاکر بھائی نے اس کار خیر اور صدقہ جاریہ میں چیف کمشنر کے ہمرا ہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری فنڈز کے بغیر ملتان ڈویژن میں مقامی آب وہوا اورمٹی سے مطابقت رکھنے والے 6لاکھ سے زائدپودے لگائے جاچکے ہیں۔ حوصلہ افزا امریہ ہے کہ 90فیصد پودے مختر حضرات کے فنڈز سے لگائے گئے ہیں۔ مشق مسلسل جاری ہے جس کے باعث ائیرپورٹ روڈ‘ابدالی روڈ‘معصوم شاہ روڈ‘نادرن اور سدرن بائی پاس سمیت ملتان کی شاہراؤں پر سرسبز پودوں کی بہار آچکی ہے۔جشن آزادی کے موقع پر درخت لگا کر حب الوطنی کا ثبوت دینے کے عنوان سے بھی مہم جاری ہے۔یہ کاوش خاصی ثمر آور ثابت ہوئی۔ جشن آزادی کے موقع پر ہلہ گلہ اور ون ویلنگ کرنے کے بجائے ملک بھرمیں نوجوانوں کو اگر اس جانب مائل کرلیا جائے تو صرف ایک دن میں کروڑوں پودے لگ سکتے ہیں۔ یہ آزادی کا انتہائی خوبصورت جشن اور وطن عزیزکی عظیم خدمت ہوگی۔عوام میں یہ احساس ذمہ داری برقرار رہا تو ملتان میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے باعث کٹنے والے لاکھوں درختوں کا مداوا ممکن ہوجائے گا۔دعوت اسلامی کی جانب سے بھی جشن آزادی کے موقع پر 26لاکھ پودے لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ دیگر اسلامی وسیاسی تنظیمں بھی اگراس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تو شجرکاری کا ایک بڑا ہدف حاصل اور آئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے بیشتر کسان جعلی زرعی ادویات اور بیج مافیا کے ہاتھوں کنگلے ہوچکے ہیں۔نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ جنوبی پنجاب کے زمینداروں نے کپاس کا شت کرنے سے توبہ کرلی ہے۔جعلی زرعی ادویات اور بیجوں کی وجہ سے کسان مالی طور پر غیرمستحکم ہوچکے ۔ بے لگام طاقتور زرعی ادویات مافیا کولگام ڈالنے کیلئے کوئی بھی سرکاری افسر ایکشن لینے کو تیار نہیں تھا۔ کسی افسر نے کبھی کوشش تو نتیجہ تبادلے اور جھوٹے الزامات کی انکوائری کی صورت میں نکلا۔چیف کمشنر ملتان نے اسسٹنٹ کمشنر ز کو ہدایات جاری کی گئیں کہ کمپیوٹرائز ڈشناختی کارڈ کے مطابق لینڈ ریکار ڈ اپ گریڈ کیا جائے ۔ افسروں نے حسب روایت اس ہدایت کو معمول کی کارروائی سمجھ آنکھوں میں دھول جھونکنے کا فارمولہ آزمایاجوکارگر ثابت نہ ہوسکا ۔ غفلت برتنے والے افسران کی سخت سرزنش کرکے انضباطی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ ہوا تو افسران نے اپنا قبلہ درست کرلیا۔ملتانیوں کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں ایک ایسا چیف کمشنر میسر آیا ہے جو ملتان کی مٹی کا قرض اتارنے اورملتان ڈویژن کے عوام کے مسائل حل کرکے اپنا فرض نبھانے میں مصروف ہے۔