ابوالفتح حضرت شاہ رکن الدینؒ،رکن عالم کے 705ویں سالانہ عرس کے آخری روز، آج پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سلسلہ سہروردیہ کے شیخ طریقت کے طور پر ، مسندِ سجادگی پر جلوہ گر ہوتے ہوئے، اختتامی دُعا اور کلماتِ خیر کے ساتھ ،تین روزہ عرس تقریبات کا اختتام کریں گے ۔ عصرِ حاضر ہی نہیں ، زمانہ قدیم میں بھی داخلہ اور خارجہ امور پر یہ خانقاہ اثر انداز رہی ،سلسلہ سہروردیہ کے بانی حضرت الشیخ شہاب الدین عمر سہروردیؒ (1234-1145ئ) سے براہِ راست مستفیض ہوکر ، حضرت الشیخ بہا ء الدین زکریاؒ ،ملتان میں جلوہ گر ہوئے اور سہروردی خانقاہ کی بنیاد رکھی ۔ ہندوستان میں مسلم سطوت کے اس اوائل دور میں، جب سلطنتِ دہلی پر قطب الدین ایبک متمکن تھا، تو اس کے زیرنگین ناصر الدین قباچہ، گورنرملتان ، اسکا وفادار رہا، لیکن جب شمس ا لدین التمش تختِ دہلی پر براجمان ہوا، تو قباچہ نے خود مختاری کا ارادہ کیا، حضرت بہاء ا لدّین زکریا ملتانیؒ اور قاضی شرف الدین (چیف جسٹس) نے قباچہ کی اس حرکت سے تختِ دہلی کومطلع کرنا چاہا ، انٹلیجنس نے قباچہ کو خبردار کردیا ، قاضی شرف الدین کی تو فوراً گردن زدنی کر دی گئی ، مگر بہاء ا لدین زکریا ملتانی ؒکے اثر ورسوخ کے سبب ، قباچہ فوری طور پر کوئی تادیبی کارروائی نہ کرسکا، مواخذہ پر حضرت بہاء ا لدّین زکریا ؒنے برملا کہہ دیا کہ تمہاری یہ حرکت ملکی امن وامان کے لیے خطرہ اور مسلمانوں کے جان ومال کے ضیاع کا باعث ہوگی ۔ شمس الدین التمش نے بغاوت کو کچل دیا، اورقباچہ دریائے سندھ میں ڈوب گیا ۔ حضرت بہاء ا لدّین زکریا ملتانیؒ کے وصال (1262ئ)کے بعد، آپ کے صاحبزادے حضرت مخدوم صدر الدین جانشین ہوئے،جس کو مورثی سجادہ نشینی کی اوّلین مثال سمجھا جاتا ہے ۔ حضرت شیخ صدر الدین کی وفات(1309ئ) کے بعد ، آپ کے صاحبزادے حضرت الشیخ رکن الدین ،رکن عالم ، جواپنے جدّا مجد حضرت بہاء ا لدین زکریا کے براہِ راست مرید اور اپنے والد کے خلیفہ تھے ،اپنے والد کے جانشین مقرر ہوئے ۔ اپنے عہد میں آپ کو بڑا عروج میسر تھا ۔ علاء ا لدّین خلجی آپ کا بڑا معتقد تھا۔ اس کے عہد میں آپ دو مرتبہ دہلی آئے ۔ بادشاہ نے بڑی عقیدت کے ساتھ آپ کا استقبال کیا ،اور بوقتِ رخصت کئی لاکھ تنکے بطور نذر پیش کیے ،جو آپ نے مستحقین میں تقسیم کردیئے۔سہروردی اور چشتی سلاسل حکومت ِ وقت سے راہ ورسم کے حوالے سے الگ الگ پالیسی رکھتے تھے۔دہلی میں رہتے ہوئے حضرت نظام الدین اولیائؒ خود کو دربارداری سے بالکل علیحدہ رکھتے ، نہ کبھی خود بادشاہ کے پاس گئے اور نہ کبھی اس کو اپنے ہاں مدعو کیا، جبکہ سہروردی بزرگ بادشاہوں سے میل ملاقات اور ان کی پالیسیوں پر اپنا اثر ورسوخ رکھتے اور ان کو خلقِ خدا کی خدمت کی طرف مائل رکھتے۔ایک مرتبہ دہلی میں قیام کے دوران حضرت شاہ رکن ا لدین عالمؒ،حضرت نظام الدین اولیائؒ سے ملاقات کے بعد ،ان کی خانقاہ سے رخصت ہونے لگے ،تواپنی مخصوص سواری پر مخلوق کی بکھر ی ہوئی عرضیوں اور درخواستوں کو دیکھ کر کہنے لگے ،یہ عرضیاں لوگوں نے مجھے بادشاہ تک پہنچانے کے لیے دی ہیں ،مگر انہیں کیا معلوم کہ میں آج کس بادشاہ کا مہمان ہوں: ’’در حُجرۂ فقر، بادشاہے در عالمِ دل، جہاں پناہے‘‘ یعنی:وہ حُجرئہ فقر کے شہنشاہ ہیں،وہ عالمِ دل کے آسمانِ ذی جاہ ہیں ۔ حضرت شاہ رکن الدین کے تختِ رواں تک پہنچنے والی درخواستوں پر، آپ اپنی موجودگی میں بادشاہ سے احکام صادر کرواتے، اور عملدرآمد تک ان امور پر متوجہ رہتے ۔سلطان محمد تغلق آپ کا بہت معتقد تھا، جب اس نے کشلو خاں کی بغاوت کو کچل کر، ملتان میں قتل عام کا حکم دیا، تو حضرت شیخ رکنِ عالم ؒ پریشانی میں ننگے پاؤں ، اپنی خانقاہ سے نکلے اور اہل شہر کے لیے سفارش فرمائی، جوبادشاہ نے منظور کی۔ سلطان المشائخ نظام الدین اولیائؒ اور سلطان غیاث الدین تغلق کا تصادم عروج پر تھا اور سلطان نے حکم نامہ بھیجا کہ میری آمد سے قبل، سلطان المشائخ دہلی چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں ،اسی شاہی فرما ن کی پیشانی پر ،حضرت سلطان المشائخ نے ’’د ہلی ا ز تو دو راست‘‘اور ایک روایت کے مطابق ’’ہنوز دہلی دور ا ست ‘‘کا فرمان ثبت کروا کے بادشاہ کو واپس ارسال کر دیا، غیاث الدین تغلق فتوحات سمیٹتے ہوئے ,بنگالہ سے واپسی پر،جب دہلی کے قریب پہنچا تو اس کے بیٹے جونا خان، جو بعد میں محمد تغلق کے نام سے معروف ہوا، کے نو تعمیر شدہ چو بیں محل میں منعقدہ استقبالیہ ضیافت میں ،حضرت شاہ رکن الدین عالم بھی موجود تھے ، آپؒ نے بادشاہ کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اُسے فوراً محل سے باہر آنے کا کہا ، بادشاہ نے توقف کیا اور کھانے میں مصروف رہا ، اسی اثناء میں محل زمین بوس ہوگیا اور غیاث الدین تغلق دہلی نہ پہنچ سکا۔ گویا ابو الفتح حضرت شاہ رکنِ عالم نے غیاث الدین تغلق کی دستگیری کرنا چاہی۔۔۔ لیکن دوسری طرف ۔۔۔سلطان المشائخ کے خادمِ خاص نے حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس حادثہ کی خبر پہنچائی ، تو آپ نے خادم کے اس جوش کو ناپسند فرماتے ہوئے تاریخ ساز جملہ عطا فرمایا: "اللہ تعالیٰ کی مشیت انسانی ارادوں پر غالب ہوتی ہے۔’’،آپ نے فرمایا:’’بادشاہ اچھا آدمی تھا ۔‘‘حضرت شاہ رکن الدینؒ نے اپنے حیاتِ ظاہری کے آخر ی سال ، حضرت بہاء ا لدین زکریا ؒکے سالانہ عرس کے اجتماع میں ، اپنے آخری خطاب میں عقید ت مندوں کو جو پند ونصائح فرمائے ،ان میں دنیا کی بے ثباتی ، خدمتِ خلق، فکر آخرت اورسلاطین تک رسائی کی صور ت میں انہیں خوفِ خدا کی تلقین اور رعایا پر شفقت جیسے امور بطورِ خاص شامل ہیں،مزید یہ کہ خانقاہ کے لنگرکا ہمہ وقت اجراء ،مدرسہ کی علمی سرگرمیوں میں تسلسل اورحجرہ نشین درویشوں سے محبت کی بھی خصوصی ہدایت فرمائی ۔ 7جماد ی الاولیٰ735ھ، حالتِ سجدہ میں آپ اس دارِ فانی سے کوچ فرماگئے ۔حضرت شاہ رکن عالم کا مزار دنیا کی معروف عمارات میں سے ایک ہے ،یہ عالی شان مقبرہ غیاث الدین تغلق نے اپنے لیے بنوایا تھا ،دہلی کے قریب حادثاتی موت کے سبب غیاث الدین تغلق ، حضرت بہا الدین زکریا ملتانی ؒکے قدموں میں دفن ہونے سے محروم رہا ،ازاں بعد محمد تغلق نے یہ مقبرہ حضرت شاہ رکنِ عالم ؒکے لیے مختص کردیا، جہاں آپ معمول کے وظائف میںمشغول رہتے ۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اسی مقبرے میں حضرت شاہ رکن عالمؒ کی تدفین ہو ، لیکن آپـؒ کی وصیت کے مطابق آپ کو، آپ کے جدِّ اعلیٰ حضرت بہاء الدین زکریا ؒکے قدموں میں دفن کیا گیا، کچھ عرصہ بعد شیخ صدر الدین محمد (سجادہ نشین ) نے خواب میں حضرت بہاء الدین زکریا ؒکودیکھا جو اپنے پوتے کی ،اپنے قدموں کی طرف تدفین سے مضطرب ہیں ، چنانچہ سلطان فیروز شاہ کی موجودگی میں ،حضرت شاہ رکن ا لدین عالمؒ کو یہاں سے ، موجودہ مقبرے میں منتقل کردیا۔