ملکہ الزبتھ آنجہانی ہوئیں تو مجھے ملکہ زینت محل یاد آگئیں ۔ یادیں ہاتھ تھامے رنگون کے مضافات تک لے گئیں جہاں ایک بے نام قبر میں یہ ملکہ سو رہی ہے۔ ملکہ الزبتھ ایک بھلی خاتون تھیں۔ باوقار اورسنجیدہ۔ چہرہ اگر مزاج کا انتساب ہوتا ہے تو وہ یقینا ایک شاندار خاتون ہوں گی۔ان کے چہرے کی جھریوں میں مگر مجھے زینت محل بھی نظر آتی ہیں۔ بر صغیر کی آخری ملکہ۔ بہادر شاہ ظفر کی اہلیہ۔ یہ مغلوں کی واحد ملکہ ہیں جن کی کیمرے کی تصویر دستیاب ہے۔ ایک برطانوی ملکہ ہیں ایک مقامی ملکہ ہیں۔ دونوں کے چہرے سے ایک جیسا وقار چھلک رہا ہے۔ وقار کا تعلق شاید ہوتا ہی آسودگی اور اقتدار سے ہے۔ ملکہ زینت محل کی تصویر کچھ سادہ سی ہی ہے۔ شاید اس لیے کہ بلیک اینڈ وائٹ ہو یا پھر شاید یہ ان زمانوں کی تصویر ہو جب وقت اپنی چال چکا تھا اور ملکہ کا اقتدار ختم ہو چکا تھا۔ جو بھی وجہ رہی ہو لیکن تصویر بتا رہی ہے کہ گردش دوراں کے سارے دکھ ملکہ زینت محل سے اس کا وقار نہیں چھین سکے۔ ایسے بیٹھی ہیں جیسی گائوں میں مائیں بیٹھی ہوتی ہیں۔ملکائیں کب کسی کی ہوتی ہیں لیکن وقت جب سب خاک کر دیتا ہے تو تصویر میں صرف ممتا بچتی ہے۔ زینت محل کی یہ تصویر بھی کسی ملکہ کی نہیں بلکہ ایک ممتا کی تصویر ہے۔ کسی کے نصیب میں کیا لکھا ہے، یہ کسی کو کیا معلوم۔ ملکہ الزبتھ کا انتقال ہوا تو ان کی شہد کی مکھیوں کو بھی خبردکر دی گئی کہ تمہاری ملکہ اب اس دنیا میں نہیںرہیں اور ملکہ زینت محل کا انتقال ہوا تو ہندوستان تک یہ خبر پہنچتے پہنچتے سال لگ گئے۔ ملکہ الزبتھ کی آخری رسومات تو اہتمام سے ادا ہوئیں لیکن ملکہ زینت محل کو رنگوں کی ایک بے نام قبر میں خاموشی سے یوں سپرد خاک کر دیا گیاکہ کسی کو معلوم نہ ہو سکا یہ کون تھی جو اس بے بسی سے مٹی میں دفن ہو گئی۔ لارڈ میکالے نے جو برصغیر پر مسلط کردہ تعلیمی اور قانونی نظام کے خالق ہیں، کس ادا سے کہا تھا کہ ہم سفید فام لوگ برصغیر کو تہذیب سکھانے آئے ہیں۔ کس بے اعتنائی سے انہوںنے کہا تھا کہ اردو عربی اور فارسی میں دنیا بھر میں جو کچھ لکھا گیا، اس کی اوقات ہماری یورپی لائبریری کے ایک شیلف کی چند کتابوں سے کم ہے۔ کس سرد مہری سے انہوں نے دعوی کیا تھا کہ تہذیب کے وارث ہم ہیں باقی سب گنوار ہیں۔ انہیں مہذب بنانا ہمارا کام ہے۔لیکن ہوا کیا؟ پرانے وقتوں کی کہانیوں میں لکھا ہوتا ہے بادشاہ نے قیدی بادشاہ سے پوچھا تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ اس نے کہا جو بادشاہ بادشاہ سے کرتے ہیں۔لیکن اب جو ہمیں تہذیب سکھانے آئے تھے ، جن کے کندھوں پر White Man's Burden تھا کہ انہوں نے دنیا بھر کو مہذب بنانا ہے ، تاجر کے روپ میں آنے والے ان تہذیب یافتہ لوگوں نے صدیوں سے یہاں حکومت کرنے والوں پر مقدمہ قائم کیا کہ تم نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے۔ایک غیر ملکی تجارتی کمپنی ایک مقامی سلطان پر مقدمہ چلا رہی ہے کہ تم نے ہمارے خلاف بغاوت کی۔طاقت بے شک ہر دور میں سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے لیکن ذرا دیکھیے تو ، ہمیں تہذیب سکھانے کون آ یا تھا۔ بادشاہ کو جلاوطن کر دیا گیا۔ رنگون کے حبس میں قید بھی کہاں کیا؟ ایک انگریز افسر کے گیراج میں۔ جس میں ہوا کی ایک کھڑکی تھی جو بند رہتی تھی۔بادشاہ کا انتقال ہوا تو نہ تاریخ رکی،نہ وقت تھما، نہ شہد کی مکھیوں کو بتانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ لاشہ اٹھایا گیا۔ ہندوستان کے آخری بادشاہ کا جنازہ پڑھنے والوں کا جم غفیر’ پورے ‘ آٹھ افراد پر مشتمل تھا۔صدیوں حکومت کرنے والے مغل خاندان کا آخری تاجدار قید کانے کے عقب میں جھاڑیوں میں دفن کر دیا گیا۔نہ کوئی اعلان ہوا ، نہ کوئی رسم ہوئی ، نہ کوئی رویا ، نہ کسی کو اطلاع دی گئی۔جو عروج کے زمانے میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے دربار میں گھٹنوں کے بل رینگ کر معافی مانگنے آئے تھے انہوں نے اجڑے دیار کے بے بس بادشاہ کی قبر کا نشان تک باقی نہ رہنے دیا۔ کہتے ہیں کہ ایک سال تک ہندوستان میں شہد کی مکھی تو کیا کسی انسان کو بھی خبر نہ ہونے دی گئی کہ بادشاہ کا انتقال ہو گیا۔ 1903ء تک کسی کو معلوم نہ تھا ، بادشاہ کہاں دفن ہے۔ 1903ء میں جب لوگوں نے احتجاج کیا کہ قبر کا تو بتا ئو تو جواب ملا قبر کا بتانا ممکن نہیں، یہاں زائرین جمع ہو جائیں گے۔احتجاج بڑھا تو میدان میں ایک نشان لگا دیا گیا۔ کتبہ نہیں صرف نشان۔چند ہفتوں میں جو غائب ہو گیا۔یہ 1991ء کی بات ہے۔ نالے کی کھدائی کی دوران ایک ڈھانچہ بر آمد ہوا تو معلوم ہو شہنشاہ ہند یہاں دفن ہیں۔اب وہاں ایک درگاہ ہے۔ اسی درگاہ میں کسی نا معلوم مقام پر بر صغیر کی آخری ملکہ ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ وہ بھی جلاوطن ہوئیں۔ بادشاہ کے انتقال کے بیس سال بعد تک زندہ رہیں۔ یہ وقت کیسے گزرا کسی کو معلوم نہیں۔کب کب کیسے کیسے ان کی توہین اور تذلیل ہوتی ہو گی،کچھ معلوم نہیں۔کوئی عام گھریلو سی ملکہ وہ نہیں تھیں۔1857ء کی جنگ آزادی میں ان کا ایک کردار تھا۔ محل کا دروازہ مزاحمت کاروں کے لیے انہوں نے ہی کھولا تھا۔پردیس میں ان کا انتقال ہو گیا ۔ کیسے ہوا اور کس بیماری میں ہوا کچھ معلوم نہیں۔ ان کو بھی اسی طرح خاموشی سے بادشاہ کے قید خانے سے ملحقہ اسی احاطے میں دفن کر دیا گیا جس میں بہادر شاہ ظفر کو کیا گیا تھا۔ شہد کی مکھیوں کو تو کیا کسی نے انسانوں کو بھی خبر دینے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ ہندوستان کی آخری ملکہ کا انتقال ہو گیا۔ کسی کو معلوم نہیںملکہ کہاں دفن ہیں۔ بس ایک انداز ے کی بنیاد پر مٹی کے ایک ڈھیر کو ہندوستان کی ملکہ کی قبر قرار دے دیا گیا۔ ہندوستان کی آخری ملکہ بے نام قبر میں اتار دی گئی ۔ شہد کی مکھیوں کو معلوم ہی نہ ہو سکا ملکہ کے حصے کی مٹی کا اصل ڈھیر کون سا ہے۔ یہی سلوک اودھ کی ملکہ حضرت محل کے ساتھ ہوا۔1857 کی جنگ آزادی میں کم سن بیٹے کو تخت پر بٹھا کر تلوار اور بندوق لے کر وہ انگریز سے لڑنے نکلیں۔ ملکہ وکٹوریہ کے مشہور اعلان وکٹوریہ کو چیلنج کرتے ہوئے انہوں نے اپنا اعلانِ حضرت محل جاری کیا تھا۔ سلطان ٹیپو کو جیسے شیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ویسے ہی حضر ت محل لوک داستانوں کی شیرنی تھی۔ شکست کے بعد گرفتاری دینے کی بجائے نیپال چلی گئیں۔ شہد کی مکھیوں کو بہت بعد میںمعلوم ہوا کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کی قبر کٹھمنڈو جامع مسجد کے احاطے میں ہے۔ باوقار ملکہ الزبتھ کو دیکھتا ہوں تو باوقار ملکہ زینت محل یاد آ جاتی ہیں۔وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ یہ جرم ضعیفی کی سزا ہے ،اس میں شہد کی مکھیوں کا کیا قصور؟