صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سربراہی میں پیش آمدہ ماہ رمضان 1442ھ کے امور بالخصوص’’نماز تراویح‘‘ کی بابت‘ ایک جامع اور اعلیٰ مشاورت کے بعد ’’متفقہ اور مشترکہ اعلامیہ‘‘ ڈاکٹر عارف علوی ‘ صدر پاکستان نے قوم کا عطا کر دیا‘ جو کہ یقینا اطمینان بخش امر ہے‘ ایک روز قبل‘ ایوان صدر میں منعقدہ اس اجلاس میں‘ ویڈیو لنک کے ذریعے چاروں صوبائی دارالحکومت کے ساتھ‘ صدر آزاد کشمیر سردار مسعود احمد خان اور گورنر گلگت بلتستان بھی اپنے صوبے کے اکابر علماء اور دینی شخصیات کے ساتھ اس میں شریک تھے۔ لاہور سے گورنر پنجاب کی سربراہی میں عمائدین حکومت جن میں جناب وزیر اوقاف، جناب چیف سیکرٹری ‘ ایڈیشنل چیف سیکرٹری‘ آئی جی پولیس‘ سیکرٹری اوقاف‘ ڈی جی اوقاف ‘ جبکہ 30سے زائد علماء بطور خاص مولانا غلام محمد سیالوی‘ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری‘ مولانا فضل الرحیم‘ مولانا نیاز حسین نقوی‘ مولانا محمد افضل حیدری‘ مولانا طاہر محمود اشرفی‘ مولانا ابتسام الٰہی ظہیر‘ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی‘ مفتی محمد اقبال چشتی‘ مولانا سید عبدالخبیر آزاد‘ مولانا زاہدالراشدی‘ مولانا عبدالمالک‘علامہ مقصود قادری ‘ پیر سید ناظم حسین شاہ قابل ذکر ہیں۔ کراچی سے مفتی منیب الرحمن اور مفتی محمد تقی عثمانی کی موجودگی اہم تھی‘کیونکہ گزشتہ ہفتے انہی حضرات کی معرکہ آرا پریس کانفرنس کے بعد ‘ وفاقی سطح پر ’’رمضان فارمولا‘‘ کی جامع اور متفقہ پالیسی کی تشکیل ناگزیر ہو گئی تھی‘ جس کا بہرحال کریڈٹ صاحبزادہ پیر نور الحق قادری وفاقی وزیر مذہبی امور کے سر ہے۔ جنہوں نے کمال حکمت اور دانشمندی سے‘ اس سارے معاملے کے عملی‘ فکری اور نظری پہلوئوں کو بطریق احسن نبھایا اور قوم کو ایک گراں قدر فارمولے پر متفق کیا‘ جس کو ایک اجماع کی حیثیت میسر ہوئی۔ ایوان صدر میں پیر نقیب الرحمن ‘ صاحبزادہ ڈاکٹر ساجد الرحمن‘ مولانا امین شہیدی‘ پیر امین الحسنات جیسی اکابر دینی شخصیات کے ساتھ ڈاکٹر قبلہ ایاز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل‘ ڈاکٹر ظفر مرزا اور وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ سمیت وفاقی ایریا کے دیگر علماء بھی موجود تھے۔ تمام علما اور مذہبی و دینی شخصیات جو اس ملک گیر ویڈیو کانفرنس میں شریک تھے‘ اور جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا وہ اس امر پر متفق تھے‘ کہ کورونا وبا سے نجات کے لئے رجوع الی اللہ‘ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں‘ جس کے لئے رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں اجتماعی عبادات کا اہتمام ‘اللہ کی رحمتوں کے حصول کا ذریعہ اور اس کی ناراضی اور اپنے گناہوں کے ازالے کے وسیلہ ثابت ہو گا۔ محترم مفتی منیب الرحمن نے بھی مکمل تعاون کے ساتھ’’سپیس فارمولا‘‘ کہ مسجد کا جتنا ایریا ہے‘ اس کے مطابق نمازیوں کے درمیان فاصلہ طے کرتے ہوئے‘ اتنے لوگوں کو نماز/تراویح کی اجازت دے دیں‘ چنانچہ تین گھنٹے کی طویل مشاور ت کے بعد’’متفقہ اعلامیہ‘‘ جناب صدر پاکستان نے جاری فرمایا اس میں بھی اہم ترین پہلو نمازیوں کے درمیان فاصلے کا تھا‘ جس کے لئے وزارت مذہبی امور نے ایک باقاعدہ ’’ڈرائنگ ‘‘بھی جاری کر دی ہے‘ جس کے مطابق ہر نمازی کا آگے‘ پیچھے‘ دائیں‘ بائیں۔ دوسرے نمازی سے چھ فٹ کا فاصلہ ہو گا۔ ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بھی اس کو محفوظ قرار دیا ہے۔ بہرحال ایک طویل عرصے کے بعد قومی سطح پر ایک ایسا اتفاق رائے ممکن ہوا ہے جس کی روشنی آنے والے دنوں میں اس امر کی یاد دلاتی رہے گی کہ اگر ہم چاہیں تو مشکل حالات میں کٹھن فیصلے کر سکتے اور باہمی اختلافات سے بالاتر ہو کر مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دے سکتے ہیں‘ اس مرحلے پر وفاقی وزارت مذہبی امور کے ساتھ پنجاب کے صوبائی وزارت اوقاف و مذہبی امور کا موثر کردار یقینا قابل ستائش رہا‘ جنہوں نے حکومتی لیڈر شپ اور مذہبی قیادت کے درمیان مفاہمت کے بہترین ماحول کو مستحکم رکھا‘ اور بالخصوص سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ناطے‘ پنجاب کا اس سلسلے میں کردار اس حوالے سے زیادہ نمایاں رہا کہ گزشتہ ایک ماہ میں اس حوالے سے تصادم یا مزاحمت کا کوئی قابل ذکر واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔ مذہبی طبقات کو مسلسل رابطے اور اعتماد میں رکھا گیا اور تمام سٹیک ہولڈرز ایک مربوط ماحول میں‘ باہم گفت و شنید کے ذریعے پیش آمدہ مسائل پر بات چیت کرتے رہے۔ اس بحران میں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اپنے ادارے کے تشخص اور دائرہ فکر و عمل کو موثر بناتے ہوئے‘ اسے ایک روایتی ڈگر سے نکال کر قومی دھارے میں شامل کیا ہے۔ خانقاہوں میں پیر صاحب عید گاہ شریف نے‘ آگے بڑھ کر‘ اس قومی اور دینی مسئلہ پر اپنا حصہ ڈالتے ہوئے مشائخ کو سرخرو کیا‘ اس مشاورت کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں نمائندہ شخصیات جنہوں نے اظہار خیال کیا‘ نے ’’کورونا وبا‘‘کے متاثرین کی امداد کے حوالے سے اپنے جذبات کو اظہار کرتے ہوئے قوم کو اس جانب راغب کیا کہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے ضرورت مند بھائیوں کی مدد کو ترجیع دیں۔ صدر مملکت کی طرف سے اعلان کردہ متفقہ اعلامیہ جس کے اہم نکات حسب ذیل ہیں۔   مساجد اور امام بارگاہوں میں قالین یا دریاں نہیں بچھائی جائیں گی، صاف فرش پر نماز پڑھی جائے گی۔ اگر کچا فرش ہو تو صاف چٹائی بچھائی جا سکتی ہے۔ جو لوگ گھر سے اپنی جائے نماز لا کر اس پر نماز پڑھنا چاہیں، وہ ایسا ضرور کریں۔ نماز سے پیشتر اور بعد میں مجمع لگانے سے گریز کیا جائے۔جن مساجد اور امام بارگاہوں میں صحن موجود ہوں وہاں ہال کے اندر نہیں بلکہ صحن میں نماز پڑھائی جائے۔  50سال سے زیادہ عمر کے لوگ، نابالغ بچے اور کھانسی نزلہ زکام وغیرہ کے مریض مساجد اور امام بارگاہوں میں نہ آئیں۔ مسجد اور امام بارگاہ کے احاطہ کے اندر نماز اور تراویح کا اہتمام کیا جائے۔ سڑک اورفٹ پاتھ پر نماز پڑھنے سے اجتناب کیا جائے۔مسجد اور امام بارگاہ کے فرش کو صاف کرنے کے لئے پانی میں کلورین کا محلول بنا کر دھویا جائے۔ اسی محلول کو استعمال کر کے چٹائی کے اوپر نماز سے پہلے چھڑکاؤ بھی کر لیا جائے۔ مسجد اور امام بارگاہ میں صف بندی کا اہتمام اس انداز سے کیا جائے کہ نمازیوں کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ رہے۔اس سلسلے میںایک نقشہ ترتیب دیا گیاجو مدد کر سکتا ہے۔ مساجد اور امام بارگاہ انتظامیہ ذمہ دار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائے جو احتیاطی تدابیر پرعمل یقینی بنا سکے۔ مسجد اور امام بارگاہ کے منتظمین اگر فرش پر نمازیوں کے کھڑے ہونے کے لئے صحیح فاصلوں کے مطابق نشان لگا دیں تو نمازیوں کی اقامت میں آسانی ہو گی۔ وضو گھر سے کر کے مسجد اور امام بارگاہ تشریف لائیں۔ صابن سے بیس سیکنڈ ہاتھ دھو کر آئیں۔لازم ہے کہ ماسک پہن کر مسجد اور امام بارگاہ میں تشریف لائیں اورکسی سے ہاتھ نہیں ملائیں اور نہ بغل گیر ہوں۔اپنے چہرے کو ہاتھ لگانے سے گریز کریں۔ گھر واپسی پر ہاتھ دھو کر یہ کر سکتے ہیں۔موجودہ صور ت حال میں بہتر یہ ہے کہ گھر پر اعتکاف کیا جائے ۔مسجد اور امام بارگاہ میں افطار اورسحر کا اجتمائی انتظام نہ کیا جائے۔مساجد اور امام بارگاہ انتظامیہ، آئمہ اور خطیب ضلعی وصوبائی حکومتوں اور پولیس سے رابطہ اور تعاون رکھیں ۔مساجد اور امام بارگاہوں کی انتظامیہ کو ان احتیاطی تدابیر کے ساتھ مشروط اجازت دی جا رہی ہے۔اگر رمضان کے دوران حکومت یہ محسوس کرے کہ ان احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہو رہا ہے یا  متاثرین کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے تو حکومت دوسرے شعبوں کی طرح مساجد اور امام بارگاہوں کے بارے میں پالیسی پر نظر ثانی کرے گی۔اس بات کا بھی حکومت کو اختیار ہے کہ شدید متاثرہ مخصوص علاقہ کے لیے احکامات اور پالیسی بدل دی جائے گی۔