روزنامہ 92 نیوز کی خبر کے مطابق کی خریداری کا سرکاری ہدف پورا نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں گندم کی مصنوعی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ رواں برس حکومت نے طے شدہ ہدف کے مقابلے میں 35 فیصد گندم کم خرید ی ہے اور اس کی وجہ سندھ حکومت کی طرف سے گندم نہ خریدنا بھی بتائی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ گزشتہ برس سرکاری گندم گوداموں میں جگہ نہ ہونے کے یاعث کھلے آسمان تلے ذخیرہ کی گئی۔ سٹوریج اور دیکھ بھال میں غفلت کی وجہ سے لاکھوںٹن گندم کے خراب ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے گندم کی قیمت 1300 روپے فی من مقرر کی تھی اور گزشتہ 10 برسوں سے گندم کے نرخوں میں اضافہ تودرکنار مقرر کردہ نرخ بھی نہیں مل پا رہے تھے اور کسان آڑھتیوں کے چنگل میں پھنس کر اپنی زمین تک بیچنے پر مجبور ہیں۔ اس کے باوجود بھی ملک میں گندم کی فصل ملکی ضرورت کے مطابق کافی ہوتی ہے۔ بہتر ہو گا تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی اپنی سیاسی مخاصمت کا انتقام غریب عوام سے نہ لیں اور ملک سے غربت کے خاتمے اور غریب کو روٹی کی فراہمی میں اپنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ غریب آدمی کو کم از کم دو وقت کی روٹی میسر آ سکے۔