واشنگٹن،اسلام آباد( ندیم منظور سلہری سے ، سپیشل رپورٹر،92نیوزرپورٹ،مانیٹرنگ ڈیسک ، نیوزایجنسیاں ) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے امریکہ افغان مسئلے کا حل نکالنے میں ناکام رہا، بدقسمتی سے وہ اسکا فوجی حل تلاش کرتا رہا جو ناممکن تھا ،میں نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا اس مسئلے کا حل فوجی نہیں بلکہ سیاسی ہے لیکن میری بات پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں تھا، ایسا بیان دینے پر مجھے طالبان خان اور امریکہ مخالف قرار دیا گیا ، پاکستان نے اگر اب امریکہ کو فوجی اڈے دئیے تو پورے ملک میں خودکش حملے شروع ہو جائیں گے ۔ امریکی نشریاتی ادارے پی بی ایس او نیوز کو خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو نہیں ٹھہرایاجا سکتا ، اب ہم اپنے ملک کی معیشت کی بحالی چاہتے ، ہم کسی نئی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے ،پاکستان پر طالبان کی مدد کا الزام غیر منصفانہ ہے ، پاکستان نے امریکہ اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا جس کا اعتراف امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی کیا،موجودہ حالات میں طالبان خود کو فاتح سمجھ رہے ہیں ،آدھے سے زیادہ ملک انکے کنٹرول میں ہے ، بدقسمتی سے امریکہ اور نیٹو افواج مذاکرات کی صلاحیت کھو چکے ، امریکہ اب چاہتا ہے طالبان سیاسی حل تلاش کرنے کیلئے غنی حکومت کیساتھ مذاکرات کریں اب ایسا ممکن نہیں، افغانستان میں جب نیٹو کی ڈیڑھ لاکھ فوج تھی اُس وقت سیاسی حل تلاش کرنا چاہئے تھا ،امریکہ نے افغانستان میں صورتحال بہت خراب کردی ،طالبان کو اب سیاسی حل تلاش کرنے پر مجبور کرنا بہت مشکل ہو گیا ، میں اب بھی یہی کہتا ہوں سیاسی تصفیہ ہی افغان مسئلے کا واحد حل ہے ۔ اگرافغانستان میں سول وار ہوئی تو اس کے اثرات پاکستان میں بھی ہونگے ، انہوں نے پاکستان سے افغانستان جہادی بھیجنے کے الزام کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے کہاطالبان کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کے ثبوت کہاں ہیں؟افغان جنگ میں شامل ہو کر ہم نے اپنی تباہی کی،ہمارا نقصان امریکی امدادسے کہیں زیادہ ہے ، اس جنگ سے پاکستانی معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا، ہم نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں 70 ہزار سے زائد جانوں کی قربانیاں دیں۔ نائن الیون حملے میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا لیکن پاکستان نے پھر بھی امریکہ کی مدد کی، پاکستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں نہیں، افغان مہاجرین کے کیمپ ہیں،پاکستان میں اسوقت 30 لاکھ افغان مہاجرین ہیں ،پاکستان کئی دہائیوں سے یہ بوجھ برداشت کر رہا ۔ پاکستانی معیشت مزید مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی ،پاکستان چاہتا ہے افغان حکومت ان مہاجرین کو واپس لے جائے ۔دریں اثناء وزیراعظم نے 18اگست کوحکومت کی تین سال کارکردگی رپورٹ جاری کرنے کافیصلہ کرلیا۔وزیراعظم کی زیرصدارت حکومتی رہنمائوں اورترجمانوں کا اجلاس ہوا،حکومتی رہنمائوں اور ترجمانوں نے آزادکشمیر الیکشن میں کامیابی پر وزیراعظم کو مبارکباد پیش کی۔ وزیراعظم نے کہا پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی جماعت بن چکی ،لیڈرشپ کاتقاضا ہے کہ آپ کے اندربرداشت کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے ،افغانستان کے معاملے پرہم پربہت بڑاپریشرآئیگا،ہم پریشرمیں آنے کی بجائے وہ فیصلے کرینگے جوعوام کی بہتری کیلئے ہوں،کورونا کے دوران ہم نے مشکل فیصلے کیے ، جن کے بہتر نتائج سامنے آئے ، ہم میں اور اپوزیشن میں نظریے کا فرق ہے ،ہم نظریے پر کھڑے رہے تو کبھی ناکام نہیں ہونگے ۔ وزیراعظم نے کہا40لاکھ افراد کو غربت سے نکالنے کا کامیاب پاکستان منصوبہ لانچ کررہے ہیں، لوگوں کو کامیاب پاکستان منصوبے کی آگاہی دینے کیلئے مہم چلانے کا فیصلہ کیاگیا،اجلاس میں زراعت کے شعبے میں اصلاحات پر ترجمانوں کو بریفنگ دی گئی،علامہ طاہر اشرفی نے مذہبی ہم آہنگی سے متعلق اقدامات پر بریفنگ دی۔وزیر اعظم نے صحت سہولت کارڈ کے ذریعے عوام کو میسر آنے والے ریلیف پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی کا موجودہ پروگرام ملکی تاریخی کا سب سے بڑا اور تاریخی پروگرام ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔اجلاس میں صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخواہ میں صحت کارڈ کی فراہمی، مستفید ہونے والے افراد کے اعداد شمار اور ابتک اس پروگرام پر ہونے والے اخراجات اور اسکے نتیجے میں عوام کو پہنچنے والے ریلیف پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وزیرِ اعظم نے کہا صحت سہولت کارڈ سے ہیلتھ سیکٹر میں ایک نیا نظام تشکیل پا رہا ہے ۔ موجودہ پروگرام سے پرائیویٹ سیکٹر کے ہسپتالوں کو فروغ حاصل ہوگا اور انہیں دیہی اور دور دراز علاقوں میں اپنی خدمات کی فراہمی میں مدد ملے گی۔ وزیرِاعظم نے ہدایت کی کہ صحت کارڈ پروگرام کے حوالے سے خصوصی یونٹس تشکیل دیے جائیں جو اس پروگرام پر عملدرآمد پر مسلسل نظر رکھیں اور کسی بھی درپیش مسئلے کو فوری طور پر حل کیا جائے ۔وزیر اعظم سے گورنر بلوچستان سید ظہور آغا اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے گزشتہ روز ملاقات کی ۔ ملاقات میں بلوچستان سے متعلقہ امور پر تبادلہ خیال کیاگیا ۔ دونوں رہنماؤں نے آزاد کشمیر کے انتخابات جیتنے پر وزیر اعظم کو مبارکباد دی۔ وزیر اعظم نے گورنر کو ہدایت کی کہ وہ بلوچستان کے تمام اضلاع کا دورہ کریں تاکہ عوام کے مسائل کے حل کے حوالے سے موثر اقدامات کو یقینی بنایا جا سکے ۔ وزیراعظم سے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان نے بھی ملاقات کی۔وزیراعظم سے پاک افغان یوتھ فورم کے وفد نے ملاقات کی۔وفدسے گفتگوکرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا افغان رہنماؤں کاپاکستان کوافغان بحران کاذمہ دار ٹھہرانا افسوسناک ہے ، خطے کاکوئی ملک پاکستانی کوششوں کی برابری کا دعویدارنہیں ہوسکتا۔ وزیراعظم نے کہا بھارت نے یکطرفہ طورپرمقبوضہ کشمیرکی حیثیت تبدیل کی، 5 اگست کے اقدام کی واپسی تک بھارت سے بات چیت ممکن نہیں ۔ وزیراعظم نے ٹوئٹر پر پیغام میں مون سون بارشوں کے پیش نظر شہریوں کو خصوصی احتیاط برتنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا این ڈی ایم اے سمیت متعلقہ ادارے الرٹ رہیں۔