علاج کیلئے لندن گئے نواز شریف نے شرط رکھی ہے کہ مریم تیمارداری کیلئے جب تک لندن نہیں آئیں گی وہ آپریشن نہیں کرائیں گے۔ ن لیگ بطور سیاسی جماعت پہلے ہی اخلاقی بحران کا شکار ہے۔ نواز شریف کی بیماری کا معاملہ متنازع ہونے سے یہ تاثر مزید مستحکم ہو رہا ہے کہ وہ کسی جان لیوا مرض کے شکار نہیں ، اس عمر میں معمول کے عوارض ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مریم نواز کو اسلئے لندن بلایا جانا ضروری ہے کہ ان کے چاچو وطن واپس آ کر مسلم لیگ ن کی قیادت سنبھال سکیں۔ کچھ حلقے ہمیں باور کرانے کی کوشش میں ہیں کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف اپنی جگہ خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی کو پارٹی معاملات سونپ رہے ہیں۔ جن دنوں نواز شریف اپنے بھائی اور دیگر اہلخانہ کی ہمراہی میں جدہ سدھارے پاکستان میں پارٹی امور جاوید ہاشمی کے سپرد کر دیئے گئے۔ جاوید ہاشمی قید تھے۔ قید بھی داستان بنانے کا بہانہ تھی۔ ہفتے میں کچھ روز باقاعدگی کے ساتھ سروسز ہسپتال لائے جاتے۔ بہت سے گھنٹے وہاں گزارتے، پارٹی کے رہنمائوں اور بچے کھچے چند کارکنوں سے ملاقات کرتے۔ شام کو جیل کی گاڑی انہیں واپس لے جاتی۔ جاوید ہاشمی نے اپنے ایام اسیری کو کتاب کی شکل میں قلمبند کیا ہے۔ کچھ لوگوں کو بہت امید تھی کہ نواز شریف واپس آئے تو جاوید ہاشمی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوں گے۔ ایسے کچھ خوش گمان مجھے بھی جاوید ہاشمی کے ساتھ ملاقات کے لئے ہسپتال لے کر گئے۔ پنجاب میں پارٹی کے معاملات نواز شریف کے قابل اعتماد سردار ذوالفقار کھوسہ کے سپرد تھے۔ ذوالفقار کھوسہ نے ایک بار ڈیفنس میں اپنے گھر چائے پر مدعو کیا۔ میاں نواز شریف نے انہیں ہدایت کی کہ اپنی تحریروں میںجمہوریت کی حمایت پر میرا شکریہ ادا کریں اور کسی قسم کی خدمت ہو تو میں بتائوں۔ میں نے ان کی پیشکش پر بس شکریہ ادا کیا اور کچھ سیاسی کارکنوں کے مسائل حل کرنے کا کہا۔ اس کے بعد دو چار بار سردار ذوالفقار خان کھوسہ سے ملاقات ہوئی مگر وہ معاملہ بلانتیجہ رہا۔ سرور پیلس جدہ میں نواز شریف اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ مقیم تھے۔ کچھ صحافی اور کالم نگاروں کو’’ خدمت کا موقع‘‘ فراہم کرکے مزے کر رہے تھے۔ نواز شریف، ان کے گھر والے، ان کے دوست اور ان کو خدمت کا موقع دینے والے صحافی مل کر سیاسی انتقام کا راگ بلند آہنگ میں گا رہے تھے۔ دولت بدلے کے فائدے پر یقین رکھتی ہے جبکہ اخلاقیات کسی کی آسانی کی خاطر اپنا روپیہ، وقت اور صلاحیت بنا کسی طمع کے استعمال کرنے کا نام ہے۔ سیاست چونکہ دور جدید تک پہنچتے پہنچتے کئی طرح کے امکانات سے منسلک ہو چکی ہے اس لئے اس نے سیاسی اخلاقیات کا ڈھانچہ بھی اپنی مرضی کے ستونوں پر کھڑا کرنے کی ضد کر رکھی ہے۔ پاکستانی سیاست میں جتنی اچھی مثالیں ہیں وہ سب بھٹو عہد اور اس کے قرب و جوار سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس سے پہلے اور بعد میں جو سیاستدان آئے انہوں نے ذاتی اغراض کو اپنا انتخابی منشور بتایا، ذاتی فائدے کو اجتماعی فائدہ بتایا اور خاندان کے مفاد کو قومی مفاد کا عنوان دیا۔ ایک فلم ہے Advocate Devil's مجھے لگتا ہے کہ جتنے سیاستدان گزشتہ 35 برسوں میں برسراقتدار رہے یا کسی حکومت کا حصہ رہے ان کو ایسے ایڈووکیٹس کی مدد حاصل رہی ہے۔ کچھ کو اب تک ایسے ایڈووکیٹس کا آسرا ہے۔ میاں نواز شریف نے جب کہا کہ وہ کسی معاہدے کے نتیجے میں جدہ نہیں گئے تو کچھ سادہ لوح یہی سمجھے مگر جب معاہدے کی کاپیاں سامنے آئیں تو وہ ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ نواز شریف نے 2013ء کے انتخابات کی شام دو تہائی اکثریت کی خواہش کی تو ہم جان گئے کہ انہوں نے قومی مفادات کے نام پر کچھ سودا بیچ لیا ہے۔ 2013ء ہی وہ سال ہے جب مریم نواز پس پردہ پارٹی اجلاسوں اور ملاقاتوں سے باہر نکل کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگیں۔ پاکستانی معاشرے میں کسی خاتون کے متحرک کردار کو سراہنے کی ضرورت ہے لیکن سیاست میں دادا کھائے تو پوتے کو اس کھانے کا بل ادا کرنا پڑتا ہے۔ مریم نواز کے سیاسی کیریئر کے ساتھ آمرانہ سرپرستی، غریب دشمن پالیسیوں، بے حس کاروباری طبقات اور اپنے والد اور چچا کی کچھ شخصی کمزوریوں اور مخالفتوں کا بوجھ ہے۔ مریم نواز اس بوجھ کے ساتھ ایسے سیاسی اتالیق کی نگرانی میں آئیں جن کی سکھائی تقریریں ان کے خاندان کی سیاسی روایت کے الٹ ہیں۔ نواز شریف نے مریم کے ساتھ ظلم یہ کیا کہ اپنی اولاد میں سب سے زیادہ توجہ کے باعث انہیں سیاست کی بجائے وراثت کے لئے تیار کیا۔ منی لانڈرنگ، ٹی ٹیز اور بے نامی اکائونٹ و جائیدادوں کے علاوہ ٹیکس کے معاملات میں گھسیٹ لیا۔ کچھ خبردار لوگوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے ظاہر کئے گئے اثاثے ان کی اولاد میں کب کے بانٹے جا چکے ہیں۔ اب مسئلہ ان اثاثوں کی تقسیم کا ہے جو کسی انتخابی گوشوارے، کسی ٹیکس ریکارڈ اور ملکی دستاویز میں نہیں۔ بہت سی جائیدادیں برطانیہ میں ہیں جن کی تقسیم کے لئے مریم کا وہاں وکیل کی بجائے شاید ذاتی طور پر موجود ہونا ضروری ہو۔ نواز شریف سیاست سے دستبردار ہو چکے ہیں تاہم وہ ذرائع ابلاغ میں اس کا اعلان نہیں کر رہے۔ ہاں کوئی انہیں آج یقین دلا دے کہ انہیں اقتدار دلانے میں مدد دے سکتا ہے تو وہ یوٹرن لے سکتے ہیں۔ ان کی زندگی میں بہت سی چیزیں اہم رہی ہیں لیکن وہ ایک فیملی مین ہیں۔ اپنے خاندان کے ساتھ خوش رہنے والے، ان کی شخصیت کا یہ رخ بہت خوبصورت ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ انہوں نے سیاست کو کاروبار سمجھا اور ملک کی طرح خاندان پر ایسے قرضے لاد دیئے جن کو اتارنا مریم نواز کے لئے ممکن نہیں۔