میرے سامنے میدان عرفات میں فضیلۃ شیخ عبداللہ بن سلیمان خطبہ حج دے رہے ہیں وہ دعا گوہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو وباؤں اور آفات سے دور رکھے وہ تقویٰ اختیار کرنے پر زور دے رہے ہیں وہ والدین سے حسن سلوک کی اہمیت بیان کر رہے ہیں اور بیویوںسے بہتر برتاؤ کی فضیلت بیان کررہے ہیں ۔میں اسکرین کے سامنے بیٹھا منتظر ہوں کہ کب فضیلۃ الشیخ میرے جذبات کو زبان دیتے ہیں کب وہ کشمیر،فلسطین ،روہنگیاکا نام لیتے ہیں وہاں کے مظلوموں کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں میں منتظر ہوں اور میراانتظار بڑھتاجارہا ہے۔۔۔ چلیں جب تک خطبہ حج ہو رہا ہے میںآپ کو پانیوں میں گھرے ایک چھوٹے سے جزیرے کی طرف لئے چلتاہوں اس کی آبادی کم وبیش بارہ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے یہاں سنولائی رنگت ، چپٹی ناک اور کوتاہ قامت کے خوش نصیب رہتے ہیں،خوش نصیب ان معنوں میں کہ یہ اپنی مرضی سے سانس لیتے ہیں اور ان پر آزادی کی دھوپ چمکتی ہے یہ چھوٹا ساملک دنیا کے کم عمر ترین ملکوں میں سے بھی ایک ہے یہاں کے لوگ مالدار نہیں یہ مچھلیاں، کافی ،سنگ مرمر اور صندل کی لکڑی بیچ کرگزارہ کرتے ہیں یہاںدو دن بہت اہم ہیں ایک 20مئی کا دن جب ان کے چہرے خوشی سے چمکنے لگتے ہیں اوریہ سڑکوں پر جھومتے جھامتے ملتے ہیں اس روز انہیں آزادی ملی تھی اور دوسرا دن 2اپریل کا ہے جب ان کے چہروںسے غم چھلکنے لگتا ہے20مئی 2002ء کو انہیں آزادی ملی تھی اور2اپریل 2005ء کو ان کی آزادی کا وسیلہ بننے والا اس جہان فانی سے کوچ کر گیاتھا ۔ مشرقی تیمور انڈونیشیا سے جڑا چھوٹا سا ملک ہے یہاںپرتگالیوں اور نیدر لینڈ نے بندر بانٹ کر رکھی تھی ستر کی دہائی میں قابض قوتوں کو دیس نکالادیاگیا جس کے بعد یہاں کا انتظام انڈونیشیا نے سنبھال لیا لیکن یہاں کے لوگ عیسائی مشنریوں کی شہہ پر اٹھ کھڑے ہوئے غالب اکثریت رومن کیتھولک عقید ے سے تعلق رکھنے والوں کی ہے اس لئے عیسائی دنیا کے مذہبی دارالخلافے ویٹی کن سٹی کی یہاں چلنے والی تحریک آزادی پر خصوصی نظر کرم رہی، انڈونیشیا اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جسکی باقاعدہ ائیر فورس ،نیوی اور آرمی ہے اسکی افواج میں چار لاکھ حاضر سروس فوجی شامل ہیں اور اتنے ہی ریزرو ہیں لگ بھگ آٹھ لاکھ کی افواج کے ملک کے لئے ایک چھوٹے سے علاقے کی ’’شرارت‘‘ پر قابو پانے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے تھی لیکن سب سے بڑی مشکل یہاں چلنے والی علیحدگی کی تحریک کے پیچھے کھڑی طاقت تھی۔ انڈونیشا کا موقف تھا کہ یہ علاقہ تاریخی و جغرافیائی طور پر اسکا حصہ ہے وہ یہاں بپا بغاوت سے اپنے تئیںنمٹتا رہا لیکن بات نہ بنی کہ اس تحریک کو سپلائی ویٹی کن سے آرہی تھی۔ نوے فیصد سے زائد رومن کیتھولک آبادی کو عیسائیت کا مرکز کیسے نظر انداز کر سکتا تھا پوپ جان پال دوئم نے1989ء میں مشرقی تیمور کے دورے کا اعلان کردیا پوپ کے اس دورے کی ٹائمنگ بڑی ہی معنی خیز تھی ۔پوپ عیسائیوں کے لئے بڑے محترم اور معزز ہیںلیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہاں امن وامان کی صورتحال بھی درپیش تھی انڈونیشیا نے پیشکش کی کہ کسی محفوظ مقام پر دعائیہ پروگرام رکھ لیا جائے لیکن یہ بات کیوں کر منظور کر لی جاتی پوپ کی آمد ’’کیش‘‘ کراناطے ہوچکا تھامشرقی تیموری ’’ پوپ کے لئیء مظاہرے ‘‘ کرتے ہیں یا ان سے کروائے جاتے ہیں کہ پوپ جان پال دوئم وہیں آئیں، لوگوں کی’’ خواہش‘‘ کے احترام میں دو اپریل کو پوپ جان پال دوئم کا طیارہ مشرقی تیمور میں لینڈ کرتا ہے اوروہ راہبوں کے سفید لبا س میں طیارے سے برآمد ہوتے ہیں ۔وہ سیڑھیوں سے نیچے اترنے کے بعد صلیب چوم کرروائت کے مطابق زمین کو بوسہ دینے کے بجائے مشرقی تیمور کی ’’مقبوضہ‘‘ زمین کو صرف ہاتھ سے چھونے پر اکتفا کرتے ہیں یہ صلیبیوں کے لئے ایک پیغام بھی ہوتاہے وہ دعائیہ اجتما ع میں انڈونیشیا کا نام لئے بغیر مشرقی تیمور میںانسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہاربھی کرتے ہیں ۔ پوپ جان پال دوئم کے اس دورے کے بعد مشرقی تیمور کی نوخیز تحریک آزادی راکٹ کی اسپیڈ سے آگے بڑھی ۔عالمی ذرائع ابلاغ نے اسکا نوٹس لیناشروع کیا ۔بڑے بڑے اخبارات کے صفحہ ء اول پر مشرقی تیمور میں ہونے والے ’’مظالم ‘‘ کی تصاویر شائع ہونے لگیں ،بڑے صحافیوں‘ کالم نگاروں کی ساری ہمدردیاں مشرقی تیمور کے لئے وقف ہوگئیں انڈونیشیا پرعالمی قوتوں کا دباؤبڑھتا چلا گیا اقوام متحدہ میںبھی اچانک سے جان آگئی اسے اپنا چارٹر یاد آگیایہ سب چند برسوںمیں تسلسل سے ہواورا اس قدرتیزی سے ہوا کہ انڈونیشیا کو اقوام عالم کے سامنے ہتھیا ر ڈالنے پڑے ۔وہ بادل نخواستہ ریفرنڈم کا کڑوا گھونٹ پینے پر رضامند ہو گیا 1999۔ء میں ریفرنڈم ہوااکثریت نے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈالا اور 2002ء میں مشرقی تیمور ایک آزاد وطن کے طور پر دنیا کے سامنے آگیا۔یہ غالباً ماضی قریب میں کامیاب ہونے والی دنیا کی سب سے مختصر تحریک آزادی ہے۔ مجھے یہ سب یاد آرہا ہے اورمیں میدان عرفات میں امام کعبہ کا خطبہ ء حج سنتے ہوئے انتظارکررہا ہوں کہ وہ کب عالم اسلام کے مظلوموں کی زبان بنتے ہیں۔ان کی زبان سے کب کشمیر کی جدوجہد آزادی کا ذکر ہوتا ہے میں انتظار پر یوں بھی حق بجانب ہوں کہ کل پرسوں ہی توپانچ اگست کا سیاہ دن ہے جب بھارتی سرکار نے اقوام عالم کی قراردادیں ایک طرف پھینک کر مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کیاتھااس ڈھٹائی کو سال ہونے کو ہے میں انتظار میں ہوں کہ میدان عرفات سے کب کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کاذکر ہوتا ہے کب یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ۔۔۔میں منتظرہوں اور سوچ رہا ہوں کہ مشرقی تیمور کی گیارہ لاکھ کی آبادی میں 98فیصد رومن کیتھولک ہیںتو مقبوضہ جموں کشمیر کی ایک کروڑ سے زائد کی آبادی میں 97فیصد مسلمان ہیں۔۔۔ مشرقی تیمور کی جدوجہد آزادی بمشکل تین دہائیوں پر محیط تھی تو یہاں نوے برس کی قربانیاں ہیں۔مشرقی تیمور کے لئے اقوام متحدہ نے کسی قرارداد کا طوطا نہیں پالااور یہاں اقوام متحدہ خود کشمیریوںکو استصواب رائے کاضامن ہے پھر فرق کیا ہے یقینا یہ کہ کشمیرمیں بہنے والا خون کسی رومن کیتھولک کا نہیں اورہمارے پاس زمین چومنے والا کوئی پوپ بھی نہیں۔۔۔ لے دے کر ایک فضیلۃ الشیخ امام کعبہ ہیںجو سال میں ایک بار میدان عرفات میں کشمیر فلسطین کا نام لے لیا کرتے ہیں۔۔۔اور اس بار وہ نام بھی نہ لیا گیامیں انتظار ہی کرتا رہ گیا اور فضیلۃ الشیخ نے بیویوں سے حسن سلوک ،تقویٰ کی اہمیت اور دعائیںدے کر خطبہ سمیٹ لیا۔۔۔!!!